پراناجہادی بیانیہ، مخصوص نصاب اورنوجوان نسل

عابد حسین

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم پرائمری اسکول سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد گاؤں ہی میں گورنمنٹ ہائی سکول گڑھی عثمانی خیل (مالاکنڈ) میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے تھے۔ مردان سے تعلق رکھنے والے سرعبدالحق اسکول پرنسپل تھے، اگر زندہ ہیں تو اللہ ان کو صحت اور خوشیاں دے اور اگر نہیں رہے تو اللہ ان کو ابدی زندگی کی خوشیاں عطا کرے۔اچھا تو 2011 میں جب ہم ہائی اسکول گئے  مشرف صاحب باوردی صدر ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں ہمارے اسکول میں دو قسم کے موٹیویٹرز آتے تھے، ایک مردان سے عمر رسیدہ صاحب آتے تھے جو صبح اسمبلی کے بعد 10 منٹ میں اپنی تقریر  کے دوران اپنی پمفلٹ نما کتابوں کے تعارف، خصوصیات و فوائد اور قیمت کے بارے میں بتا دیتے اور اسمبلی برخاست ہونے کے بعد طلباء ان سے کتب خرید کر کلاس رومز میں چلے جاتے۔ان کتب کی قیمت 10 روپے یا زیادہ سے زیادہ 20 روپے ہوا کرتی تھی۔ ان کتب میں چھ گنہگار عورتیں، ٹی وی اور عذاب قبر جیسی کتب کے ساتھ ساتھ بعض داستانی کتب بھی ہوا کرتی تھیں۔ جن میں مختلف شخصیات کی بائیوگرافی وغیرہ پڑھنے کو ملتی اور محنت کی طرف رغبت دلائی جاتی کہ محنت ہی میں کامیابی کا راز مضمرہے۔

اچھا اب آتے ہیں دوسرے قسم کے موٹیویشن اسپیکرز کی طرف دوسرے قسم کے اسپیکرز جہادی تنظیموں کے نمائندے ہوا کرتے تھے۔ ان میں لشکر طیبہ، جیش محمد، حرکت المجاہدین اور حزب المجاہدین کے نمائندےآتے تھے۔ بڑی داڑھی، بڑے بال، سر پر کمانڈو کیپ، کمانڈو جیکٹ میں ملبوس ہوا کرتے تھے۔ مذکورہ جہادی تنظیمیں بلاواسطہ کشمیرجہاد سے منسلک تھے اور اب بھی ہیں۔  آواز میں کرختگی اور رعب، تقریر کے فن میں ماہر، تقریر شروع کرنے کے بعد آہستے آہستے جوش میں آجاتے۔ جیسے جیسے تقریر طول پکڑتی جاتی، ویسے ویسے مقرر کے ساتھ ہم میں بھی جوش ابھرتا جاتا۔ سیکنڈ کے دسویں حصے میں ذہن میں یہ بات سما جاتی کہ ہمیں بھی جہاد پر جانا چاہیئے۔ مجاہد صاحب کی تقریر جب ختم ہوجاتی تو آخر میں دھیمے لہجے میں گویا ہوتے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں ظلم کررہا ہے اور ان کو جہاد کے بغیر زیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیئے طلباء کو گرمیوں کی چھٹیاں ملنے والی ہیں تو یہ آپ سب کا فرض بنتا ہے کہ چھٹیوں کے دوران آپ ھمارے ساتھ ٹریننگ کریں اور تین مہینے کی ٹریننگ کے بعد ہم آپ کو کشمیرجہاد پر بھیجیں گے۔ خواہشمند طلباء کے نام باقاعدہ طور پر لکھے جاتے۔ میں ذاتی طور پر کئی بندوں کو جانتا ہوں جو ٹریننگ پر گئے تھے۔ اس مرحلے کے بعد چندہ دینے اور گھروں پر جہادی تنظیم کو زکوة و خیرات دینے کی ترغیب بھی دیتے۔ اسی طرح جب اسکولز کی چھٹیاں ہو جاتیں تو گاؤں کی مساجد میں بھی اسی طرح کے نمائندے آتے تھے، جہاد پر جانے کا کہتے اور چندہ اکھٹا کرتے۔  جب میں آٹھویں میں پہنچ گیا تو ایک دن پہلے کی طرح جب گرمیوں کی چھٹیاں ہونے کو تھیں تو ایک بندے نے پھر تقریر جھاڑی اور خواہش مندوں کی انٹری کرلی گئی۔ ان میں ہمارے ساتھ والے گاؤں کا ایک لڑکا سید رحمان بھی تھا۔ جو ٹریننگ لینے اور جہاد پر جانے کو تیار تھا۔ خیر جب چھٹیاں ختم ہوئیں تو اسکول کھلنے کے بعد معلوم ہوا کہ سید رحمان نے ٹریننگ لے لی ہے۔ وہ اسکول کے گراؤنڈ میں مختلف مارشل آرٹس ٹرکس دکھاتا رہتا تھا۔

ان دنوں ہمارے جنرل سائنس کے ٹیچر اور اسکول کے وائس پرنسپل  منیر خان صاحب ہوا کرتے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر منیر خان ایک ماہر تعلیم اور ماہرطبیعات ہیں اور ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، ادب اور شعر و شاعری  سے بھی لگاؤ رکھتے ہیں۔ تو ہمارے سائنس ٹیچر منیر خان صاحب جب کسی جہادی بندے کو اسکول آتا دیکھتے تو سخت ناگواری کا اظہار کرتے اور پرنسپل صاحب سے شکایت کرتے کہ ان لوگوں کو اجازت نہ دیں۔ کیونکہ یہ ان بچوں کے لکھنے پڑھنے اور کچھ بننے کے دن ہیں نا کہ جہاد پر جانے کے۔ جب مجاہد صاحب اپنی تقریر شروع کرتے تو وہ یا تو کسی کلاس روم یا دفتر میں جا کر بیٹھ جاتے یا جب تک جہادی تنظیم کا بندہ اسکول سے نکل نہیں جاتا تب تک ہمارے استاد کمرے یا دفتر سے باہر ہی نہ نکلتے۔ اب تھوڑا سا ذکر سید رحمان کا کرلیتے ہیں۔

سید رحمان کو میں اکثر دیکھا کرتا تھا۔ اس نے آٹھویں جماعت کےبعد پڑھائی چھوڑ دی تھی اور باقاعدہ طور پر جیش محمد نامی جہادی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگیا تھا۔ جب سوات میں طالبانائزیشن کا چرچا ہوا تو ان دنوں ہم کالج میں بی۔اے کے اسٹوڈنٹ تھے۔ وہ  اس دن سے گھر سے نکلا تھا، وہ دن اور آج کا دن سید رحمان کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ اب تو اس کے گھر والوں کو بھی صبر آگیا ہے۔ اس کے والد تو چند مہینے بعد ہی داری فانی سے رخصت ھوگئے تھے۔ کوئی کہتا کہ وہ سوات میں فوج کے ہاتھوں مارا گیا ہے تو کوئی کہتا کہ مارکر مالاکنڈ ٹنل میں اسکی لاش کو لٹکایا گیا تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ سید رحمان جیسے کتنے جان سے گئے ہوں گے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ان لوگوں کو کیوں اجازت دی گئ تھی؟ ڈاکٹر منیر خان صاحب کے علاوہ کیا طلباء کے ساتھ ساتھ باقی اساتذہ کی بھی برین واشنگ کی گئ تھی؟ کیا ہمارے تعلیمی نصاب کو بھی ان مقاصد کے لیئے استعمال کیا جاتا تھا؟  کیا جہادی بیانیہ غیرمحسوس طریقے سے ہم پر ہم مسلط کیا گیا ہے۔ کیا اب بھی 17 برس پہلے والے حالات ہیں؟ کیا حالات اور سوچ اب بھی وہی ہیں؟ اگر حالات جوں کے توں ہیں تو کیا ریاست کو اپنی عسکری قوت پر بھروسہ نہیں ہے کہ سترہ اٹھارہ برس بعد بھی وہی بیانیہ ہے۔ طلباء اور نوجوان نسل کو پھر سے ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آنے والے مستقبل کو پھر سے عسکریت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

تین ہفتے پہلے جب ساتھ والے گاوں میں نماز جمعہ ادا کرنے کا اتفاق ہوا تو ادھر بھی ایک صاحب جماعت کے بعد کھڑے ہوۓ اور جہاد پر جانے کی تلقین کی پھر چندہ اکھٹا کیا گیا۔ نماز کے بعد جب ان سے پوچھا کہ بھائی ہم اسلامی ملک کے باشندے ہیں تو اس نے کہا بیشک ہیں۔ میں نے کہا اس ملک کی فوج ہے تو وہ بولا فوج بھی ہے۔ میں نے کہا اگر فوج ہے اور ہم اسلامی ملک میں ہیں تو جہاد فوج کو لڑنی چاہئیے کیونکہ ریاست ان کو اسی دن کے لیئے رکھتی ہے۔ ہاں اگر ضرورت پڑی تو پھر عوام بھی ساتھ دے گی۔ تو وہ بندہ غصے میں اپنے ہی باتوں کی نفی کرنے لگا۔ کونسا اسلامی ملک، کونسی اسلامی فوج، یہ سب تو مرتد ہیں، جہاد فرض ھوگیا ہے۔ تو اب اور ریاست کے اعلان کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔ خیر میں نے ایک اور سوال داغ دیا کہ بھائی کئی سالوں سے جہادی تنظیموں پر پابندی ہے اور سوات کے آپریشن کے بعد تو نہ تو کھلے عام جہاد کے پرچار کی اجازت ہے بلکہ آپ جیسوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور پکڑا جاتا ہے تو پھر آپ بھی جیل جاسکتے ہیں۔ تو وہ صاحب فرمانے لگے کہ نہیں ہمیں ایجنسیز کی سپورٹ حاصل ہے۔ ہمیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تو میں نے پھر سے سوال کیا کہ ابھی تو آپ فوج اور ریاست کو مرتد کہہ رہے تھے اور اب کہہ رہے ہو کہ سیکیورٹی ایجنسیاں سپورٹ کررہی ہیں  تو وہ لاجواب ھوگیا اور یہ کہہ کر اس نے گفتگو ختم کی کہ بھائی اگر آپ کو جہاد پر نہیں جانا تو نہ جائیے لیکن مجھے اپنا کام کرنے دیں۔

تو عرض یہ ہے کہ ٹھیک ہے کہ کشمیریوں پر ظلم ہو رہا اور ان کا ساتھ بھی دینا ضروری ہے لیکن جنگ بری چیز ہے اور امن کی بات ہونی چاہیئے۔ ایک طرف اگر بھارت امن سے مسئلہ حل کرنے کو تیار نہیں ہے تو دوسری جانب ہماری معاشی اور سیاسی حالت بھی جنگ کی اجازت نہیں دیتی۔ تو اگر یہ ایک بین الاقوامی سیاسی مسئلہ ہے تو پھر نوجوانوں اور طلباء کو بھی  ورغلانا نہیں چاہیئے۔ 17 سال پرانا ڈرامہ بند ہونا چاہیئے۔ نوجوانوں اور اسکول و کالج کے طلباء کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کے لیئے اقدامات ہونے چاہیئے نہ کہ ان کو عسکریت پسندی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ جہاد کے نام پر کوئی دوسرا سید رحمان پیدا کرنے کے بجائے ہمیں ڈاکٹر منیر خان جیسی سوچ کے حامل افراد تیار کرنے چاہیے۔ کیونکہ اکثر اسپانسرڈ مجاہدین مقصد پورا ہونے پر جان سے جاتے ہیں۔ اگر ریاست اپنے جہادی بیانیے کے بجائے حقیقت تسلیم کرے، طلباء کو جدید علوم سے آراستہ ہونے کے مواقع فرہم کرے، معاشی ترقی پر توجہ دی جائے اور بحثیت ریاست، بحثیت قوم اس قابل بنا جائے اور  ہم معاشی طور پر اتنے مضبوط ہوں کہ بین الاقوامی طور پر ہم خود کو منوا سکیں تو پھر مسئلہ کشمیر پر ہماری بات کی تائید کی جائے گی اور بین الاقوامی برادری میں عزت بھی ہوگی۔ معیشت مضبوط ہوگی تو جنگ کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی اور جہادی چورن بیچنے اور عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔