پریزائیڈنگ آفیسر ڈاکٹر سجادحُسین پر جان لیوا حملہ

ڈاکٹر شہزاد فرید 

گذشتہ ضمنی انتخابات کے دوران، پی پی 273 کے  پولنگ اسٹیشن 47 کے پریزائیڈنگ آفیسر ڈاکٹر سجاد حُسین پر چند غنڈوں  کی جانب سے جان لیوا حملہ کیا گیا جس کے باعث ان  کےجسم کے ہر حصے پر گہری چوٹیں آئیں اور وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئے۔ اللہ ان کو جلد صحتیابی سے نوازے، آمین۔ میں یہ تحریر اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ تمام سرکاری اداروں سے  بروقت مدد فراہم کرنے کے لئے رابطے کئے گئے جن میں وہ ادارے بھی شامل تھے جن کے ذمے اس ضمنی الیکشن کی شفافیت تھی مگر سب بےسود! بے حسی ! ایک اعلٰی تعلیمی یافتہ نوجوان کو ان غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، میرے لیے یہ ناصرف  انتہائی تکلیف دہ واقع ہے بلکہ  ایک بے حساب ذہنی تناؤ کا عمل بھی ہے۔ جس سے میں یہ تحریر لکھتے ہوئے بھی گزر رہا ہوں کیونکہ  ڈاکٹر سجاد سے میرا تعلق اس وقت سے جب ہم بہاالدین ذکریا یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیا ت کے طالب علم تھے۔ میں آپ تمام قارئین سے ڈاکٹر سجاد کو متعارف کروانا چاہتا ہوں تاکہ میری درج ذیل درخواست پر عمل کرنے سے پہلے آپ اس ابنِ آدم سے واقف ہوسکیں کہ وہ کس درجہ اخلاقی قدروں کا مالک ہے۔

ڈاکٹرسجاد وہ باوقار ، باکردار اور وضع دار شخص ہیں کہ جن کا گُداز سینہ ہمیشہ  لہجوں کی عزت اور لفظوں کی تلخی کی قبولیت کے لیے نرم رہا، جن کے دراز قد  میں خاندانی رویے کا جھکاؤ ہے  اور جن کی  وسیع پیشانی پر خندہ پیشانی کندہ ہے یہ وہ شریف النفس ابنِ آدم ہیں جن کے ایک دستخط پر لاکھوں روپے کتھک ناچ میں مصروف ہوجائیں مگر دس سال سے زائد  سرکاری نوکری کے باوجود ان کی اپنی ایک بھی ذاتی موٹر سائیکل نہیں، ان کے کردار پر ایک بھی داغ نہیں  سوائے ان  بےرنگ دھبوں کے جو انہوں نے اشرافیہ کے سامنے حق کہنے اور جھوٹ کو جھوٹ تسلیم کرنے کے سبب اپنی سفید پوشاک پر سجائے ہوئے ہیں جس وجہ سے ان کے اعلٰی افسران اکثر ان سے نالاں رہتے ہیں ان پر ایک دور تو وہ آیا جب سرکار انہیں نوکری سے فارغ کرنے کے در پہ تھی اور تقریباً نو ماہ انہیں ناکردہ جرائم میں گھیسٹے رکھا ،وجہ یہ تھی کہ افسر صاحبہ  نے اپنی نسوانیت کا بوجھ  ایک کھلی دھمکی کی صورت ان پر ڈالنا چاہا کہ ”اگر میری بات پر عمل نہیں کرو گے تو تم پر جنسی ہراساں کرنے کا مقدمہ کردوں گی“ جبکہ ان کہ عمر کم و بیش چالیس سال تھی اور ڈاکٹر سجاد آتش جواں تھے۔ ماہانہ تنخواہ ہی ان کا واحد ذریعہ معاش تھی جو بند تھی  اور یہ سفید پوش آدمی ان  نو ماہ میں  اپنی دوپھول سی  بیٹیوں کی کفالت کرتارہا  (جن کی پرورش جھانسی کی رانی مثل ہونی چاہئے تھی ) مگر مجال ہے کہ ماتھے پہ ایک بل بھی ہو اور بیوی یا خاندان کے کسی بھی فرد کو ان تضحیک گیر شب و زور کا علم بھی ہونے دیا ہو، سب کچھ گوتم بدھ کے شُدھ بھکشو کی طرح برداشت کرتا رہا  اور ادھر اُدھر سے جیسے تیسے پیسے جمع کرکے گھر کا راشن پورا کرتا رہا۔ اس پر اچھنبے کی بات یہ کہ انہیں دنوں میں وہ عمرانیات میں ڈاکٹریٹ بھی کررہے تھے۔

 اگر آپ ڈاکٹریٹ کے طالبِ علم رہے ہوں تو میرا خیال ہے کہ باقی تمام ذہنی ستم ِ جہانِ ناگزیر سے اس دورانیہ  کا تقابلی جائزہ لینا آپ کے لئے بھی فضول ہی ہوگا کیونکہ جو ذہنی مشقت و قرب ڈاکٹریٹ کے دورانیہ میں برداشت کرنا پڑتا ہے وہ عمومی ذہنی تناؤ کے خدا کی حیثیت رکھتا ہے اور ڈاکٹر سجاد اس دورانیہ میں بہ یک وقت دوخداؤں سے ٹکر لے بیٹھا تھا  اوراپنے  ماتھے پر لہو کا سندور سجائے مسکراتا پھرتا تھا بلکہ دندناتا پھرتا لکھوں تو زیادہ موزوں ہوگا۔ ان کی شخصیت کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اپنی تمام تر مصروفیت اور تکلیفوں کے باوجوہ ، ہمیشہ علاقے کے لوگوں اور دوستوں ، یہاں تک کے جنہیں وہ جانتے بھی نہیں مگر ان سے مدد کی دوخواست کردی تو ان کی چارہ جوئی میں جُٹا رہتا ، میں ایسے کتنے ہی لوگو ں کا چشم دید گواہ ہوں جن کی پریشانیوں کو وہ اپنے سر اُٹھائے پرتا گویا  یہ ان کا نجی معملہ ہے میں ایک دو واقعات جہاں درج کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر مجھے اس کی ہرگز اجازت نہ دے گا کیونکہ وہ لوگوں پر کئے گئے احسانات اپنی ذات سے بھی چُھپاتا ہے  لیکن  میرے ساتھ کئے گئے احسانات میں سےایک واقع، ان سے پیشگی معذرت طلب کرتے ہوئے ،یہاں بیان کرنا چاہوں گا تاکہ اس آدم کی شخصیت پر ایک نیم مردہ روشنی کی کرن ڈال سکوں۔ اس وقت ملتان میں میرا گھر زیرِ تعمیر ہے جس کی تعمیر پچھلے سال شروع ہوئی، میں اس وقت جامعہ چکوال میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں اور یہ شخص ملتان کی سخت گرمی میں اپنی ذاتی نگرانی میں میرا گھر بنوا رہا ہے، اصل بات یہ ہےکہ میرے گھر کے بالکل سامنے ڈاکٹر اپنا گھر بھی بنا رہا تھا لیکن اپنے  گھر کو بنیادوں پر ہی روک کر میرا گھر پورا کرا رہا ہے تاکہ دوستی کا حق ادا ہوسکے، ڈاکٹر کو معلوم ہے کہ یہ جوکھم میں اس کے لئے نہیں اُٹھا سکتا ، بدلے میں ایسا عمل ادا نہیں کرسکتا پھر بھی کر رہا ہے۔ میں ڈاکٹر کی ناراضی سے نہ ڈرتا تو ایسے ایسے واقعات بیان کرتا کہ آپ نیوٹرل رہنے کا سوچ بھی نہ سکتے۔

میں نے یہ تحریر متبادل کو اس لیئے بھیجی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ وہ ذریعہ ہےجو سچ کے ساتھ ہے  اور غیر جانبدار ہے ، چونکہ کسی بھی جنرلسٹ نے یہ شرمناک واقع رپورٹ نہیں کیا اسلئے بھی میں یہ تحریر متبادل کو بھیج رہا ہوں تاکہ سچ سب کے سامنے آئے۔ چونکہ کسی بھی ادارے نے ہماری مدد نہیں کی اس لئے بھی  میں سچ سب کے سامنے لانے کے لئے یہ تحریر لکھ رہا  ہوں ۔ اسلئے گذشتہ روز ڈاکٹر سجاد کے ساتھ  جو واقع پیش آیا اس کے بابت   میری تمام صحافتی برادری سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ وہ اس معاملے پر قلم اُٹھائیں ، میری تمام وکلاء برادری سے درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی جو قانونی معاونت کرسکتے ہیں وہ کریں، میری سوشل ایکٹوسٹ  اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سے بھی گزارش ہے کہ و ہ ڈاکٹر صاحب کے لئے اپنی آواز بلند کریں ۔ میری تما م پاکستانوں سے گزارش ہے کہ وہ اس ننگے ظلم و بربریت کے خلاف کھڑے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت و تندروستی کے لئے ہزاروں دعائیں۔