پشاور بم دھماکہ، دہشت گردی کا عفریت اور پختونوں کا قومی سوال!
عابد حسین
گزشتہ ہفتے پشاور ایک اور بڑے سانحے سے دوچار ہوا۔ پشاور باسیوں نے پولیس وردی میں ملبوس اپنے ایک سو چار شہدا کی لاشیں اٹھاٸیں۔
پشاور پولیس لاٸنز دھماکے میں سویلین سمیت ایک سو چار اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ ایک سو ستاون اہلکار زخمی رپورٹ ہوۓ ہیں۔
محکمہ پولیس اور آٸی جی خیبر پختونخواہ کے مطابق دهشت گرد پولیس وردی میں ملبوس تھا اور اس نے مسجد میں جاکر پہلے صف میں اپنے آپ کو اڑا دیا۔ خیر پولیس آٸی جی کے اپنے بیانات میں تضاد ہے۔ پہلے روز کہا کہ خودکش حملہ آور سولہ یا اٹھارہ سال کا بچہ ہے۔ میڈیا پر تصویر بھی دکھاٸی گٸ۔ اگلے ہی روز چالیس پینتالیس سالہ شخص جو کہ پولیس وردی میں ملبوس تھا، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا جارہا ہے کہ وہی خودکش تھا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کس طرح دس کلو بارود سے ایک عمارت کی چھت اڑ سکتی ہے۔ دھماکے کے تیسرے روز پولیس اہلکاروں نے پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا، جس پر آٸی جی صاحب کا بیان آیا کہ شرپسند میرے بچوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ احتجاج کرنے سے روکا گیا۔ اور ‘مٹی پاؤ’ کے مصداق لوگوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ دہشت گرد ویسے بھی مرچکا ہے۔ احتجاج کی ضرورت نہیں ہم دیکھ لیں گے۔ بلکل اے پی ایس والے سانحے کی طرح۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پختون سرزمین کٸی دہاٸیوں سے سانحوں پر سانحے برداشت کرتی چلی آرہی ہے ۔ اور ہمیں دہائیوں سے یہی جھوٹی تسلیاں سننے کو ملتی رہی ہیں۔
تلخ سہی مگر حقیقت تو یہ ہے کہ نا کبھی ریاست پاکستان نے پختون سرزمین اور اس کے باشندوں کو کوٸی اہمیت دی اور نا ہی ان کے مساٸل کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
سنہ 1979 کے افغان جنگ سے لے کر آج تک پختونخواہ کو دہشت گردی کے جس عفریت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کمیونسٹ روس کے سامنے بند باندھنے کے لیے مجاہدین کی تخلیق، 9/11 اور پچھلے سال سقوط کابل تک کے حالات کا بلاواسطہ اثر پختنونخواہ پر پڑتا ہے۔ جبکہ موجودہ دور میں چین، امریکہ کی معاشی پروکسی اینڈ کولڈ وار کا میدان پھر سے پختون اور بلوچ سرزمین کو بنایا جارہا ہے۔
امریکی انخلا، ریاست پاکستان کا طالبان کی سپورٹ، امریکی سامراج کے سامنے پاکستان کی سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ کی بکاؤ فطرت، یہ سب محرکات اس تباہی کی ممکنہ وجوہات ہیں۔ اس سارے ڈرامے کے لیے پختونخواہ کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ عالمی وساٸل کی جنگ کے لیے سرمایہ داریت کے خداؤں کی جانب سے رچاۓ گٸے طالباناٸزیشن، اسلاماٸزیشن کی جنگ میں افغانستان کے بعد سب سے زیادہ پختون سرزمین نے نقصان اٹھایا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات خیبر پختونخواہ میں ریکارڈ ہوٸے جس میں نومبر 2022 میں 44 فیصد اضافہ ہوا۔ صرف دسمبر میں 49 دہشت گردی کے حملے ہوۓ۔ جس میں مجموعی طور پر 56 افراد مارے گٸے۔ جبکہ نٸے سال کے پہلے ہی ہفتے میں پھر سے پختونخواہ کو دہشت گردی کا تحفہ دیا گیا۔
دہشت گردی کا عفریت، ریاستی رویے، جبری گمشدگیوں، ماوراۓ عدالت قتل، وساٸل کی لوٹ مار اور بے آوازوں کے آواز بننے والے پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے سربراہ منظور پشتین نے اپنی ساری زندگی جدوجہد کے لیے وقف کردی ہے۔ 4 فروی کو پشاور میں امن پاڅون/ امن مارچ کا اہتمام ہوا جو کہ پی ٹی ایم کارکنان اور لیڈر شپ کی نگرانی میں منعقد ہوٸی جس میں عوامی نیشنل پارٹی اور اس کی طلباء تنظیم سمیت پشاور، اسلامیہ اور زرعی یونیورسٹیز طلباء تنظیموں، اسٹوڈنٹس سوساٸیٹیز، آٸی ایم ٹی، ریڈ ورکرز فرنٹ، وکلاء و صحافتی برادری اور کٸی سیاسی جماعتوں کے نماٸندوں نے شرکت کی۔ امن مارچ کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ تمام شرکاء نے بغیر کسی سیاسی وابستگی کے اس میں شرکت کی۔ دہشت گردی، ریاستی جبر اور طالباناٸزیشن کے خلاف متحد نظر آئے۔ پشتونوں کے حقوق، اپنے وساٸل پر اپنا حق، روزگار کی فراہمی، فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ ریاست اور عسکری اداروں سمیت سیاسی جماعتوں کو بھی یہ پیغام دیا کہ اب بس ہے۔ اب پشتون مزید ریاستی دہشت گردی کے کاروبار کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ مشرمنظور نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ریاست نے ہمارے تحفظات دور نہیں کٸے تو پھر ہم اپنی عدالت لگاٸیں گے جس کا نتیجہ اس ریاست کے حق میں برا ہوگا۔
پشتون سرزمین اور پشتونوں کا قومی سوال!
عاصم سجاد صاحب کو کہیں پڑھا تھا اس نے پشتون قومی سوال کے حوالے سے کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا کہ پشتون قومی سوال کا مسئلہ انتہاٸی پیچیدہ ہے۔ کیونکہ ارتکاز دولت، غربت، مذہبی انتہا پسندی، ریاستی جبر، وساٸل کی تقسیم کار، عالمی استعمار اور سامراج کا کردار، تعلیم کا فقدان، لیڈرشپ کا فقدان سمیت کٸ محرکات شامل ہیں۔
دراصل پختون قومی سوال اس لیے بھی پیچیدہ ہے کہ مروجہ سیاسی نظام ، روایتی سیاسی جماعتیں اور سیاستدانوں میں وہ اہلیت ہی نہیں کہ ان کو حقیقی معنوں میں گاٸیڈ کرسکے، ان کو ایک سیدھا اور نتیجہ خیز راستہ دکھاۓ۔ بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے مہروں کی حثیت سے عوام اور نچلے طبقے کے استحصال میں برابر کے شریک ہیں۔
دراصل ہر جنگ، ہر براٸی، غربت و افلاس اور دہشت گردی کی جڑیں وساٸل اور معیشت اور معاشی نظام سے ملتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بدبودار مروجہ سیاسی و معاشی نظام میں مذکوره بالا مساٸل کے حل کا کوٸی امکان نظر نہیں آرہا۔
اسی طرح قوم پرستی کی سیاست بھی اس کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی پسند عناصر، تنظیمیں اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔ داٸیں بازوں کے سیاسی افراد اور جماعتوں ، مذہبی شدت پسندوں کو کاونٹر کرنے کا پروگرام بنایا جاۓ۔ اور عام آدمی کے شعور کو بیدار کیا جاۓ تو امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں اگر تمام نہیں تو کچھ مساٸل ضرور حل ہوجاٸیں گے۔