پشتون تحریک، بنگال کس طرح الگ ہوا تھا

عاطف توقیر

یہ مضمون لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں چوں کہ بچوں کو پڑھائی جانے والی تاریخ جھوٹ اور مسخ شدہ بیانیوں پر مبنی ہے اور ان بچوں کی حقیقتِ حال تک رسائی ممکن نہیں ہوتی، یہ بچے صرف میڈیا پر فوجی جرنیلوں کے طے کردہ ایجنڈے اور پروپیگنڈے کے تحت تربیت دیے گئے مواد کو دیکھتے اور سنتے ہیں، ا.س لیے اسی رو میں بہہ جاتے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے آغاز کے بعد میں نے متعدد مرتبہ اپنے مضامین میں لکھا ہے کہ ایسی کوئی بھی تحریک شروع ہو، یہ ریاست بلکہ تمام عوام کی ذمہ داری ہے کہ نیت پر رائے بنانے یا غیرملکی ایجنٹ اور غدار کہنے کی بجائے، صرف ان مطالبات کو دیکھیں، اگر کوئی مطالبہ غیرآئینی ہو تو اسے رد کر دیں اور جو جو مطالبات ملک کے قانون اور دستور کے مطابق ہوں، ان کو منظور کریں، تاکہ لوگوں کے اندر ریاست سے محبت کا جذبہ پیدا ہو۔ دوسری صورت میں نفرت پیدا ہو گی، جس کا نتیجہ ہم آج سے 47 سال پہلے ملک کے مشرقی بازو کے الگ ہو جانے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔

مشرقی پاکستان سے متعلق حقیقی معلومات تک ہماری رسائی حمود الرحمان کمیشن کے ذریعے ممکن تھی، مگر اتنی دہائیاں گزر جانے کے باوجود یہ رپورٹ مکمل طور پر عوام کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ حالاں کہ اس رپورٹ کو سامنے رکھ کر اور اس میں موجود حقائق کے ذریعے بہت سے سبق سیکھے جا سکتے تھے اور مستقبل میں ایسے کسی بھی حادثے یا سانحے سے بچنے کی کوئی تدبیر کی جا سکتی تھی۔ میں پڑھنے والوں سے کہوں گا کہ وہ اس سلسلے میں اب تک لکھی جانے والی بہت سی کتب کا مطالعہ کریں تاکہ انہیں حقائق سے آگہی ہو، تاہم یہ مضمون پڑھنے والوں کے لیے میں وہ حالات ایک طرح سے ’فاسٹ فارورڈ‘ کر کے پیش کر رہا ہوں، تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ آپ سےکیا کچھ چھپایا گیا۔

سب سے پہلی بات، شیخ مجیب الرحمان ایک سچا پاکستانی اور محب وطن شخص تھا۔ سن 1940 میں قراردادِ لاہور (قرارداد پاکستان) منظور ہوئی، تو مجیب الرحمان، جو اس وقت اسلامیہ کالج ڈھاکا کے طالب علم تھے، آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں شامل ہو گئے۔ 1943 میں انہوں نے بنگال مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی، اور مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے حصول کے لیے جاری تحریک، جسے ہم تحریک پاکستان کہتے ہیں، میں شامل ہو گئے اور نہایت مستعدی سے اپنا فریضہ انجام دیا۔ سن 1947 میں بے اے کی ڈگری لینے والے مجیب الرحمان بنگال مسلم لیگ، جو اس وقت حسین شہید سہروردی کی سربراہی میں سرگرم تھی، کے ایک مضبوط رہنما سمجھے جانے لگے۔ یہی وہ وقت تھا، جب تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ریاستیں وجود میں آئیں۔

قیام پاکستان کے بعد مجیب الرحمان نے ڈھاکا یونیورسٹی میں قانون کے شعبے میں داخلہ لیا اور ایسٹ پاکستان مسلم اسٹوڈنٹ لیگ کا حصہ بن گئے۔

اس دوران جب پاکستان میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا، تو مجیب الرحمان نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ مجیب الرحمان کا موقف تھا کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے سے بنگال کے لوگوں کی تاریخ، ثقافت اور ادب پر حرف آئے گا۔ اسی تناظر میں انہوں نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔

اس تناظر میں ان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا ان کے مطالبات سننے اور مکالمت کے ذریعے اس معاملے کو سیاسی انداز سے نمٹانے کی بجائے مجیب الرحمان کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسی تناظر میں وہ مارچ سے ستمبر 1948 تک جیل میں رہے، اس دوران وہ جیل میں رہنے کے باوجود مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے ترتیب دیتے رہے جب کہ اپنی رہائی کے لیے انہوں نے 13 روز تک بھوک ہڑتال بھی کی۔

دریں اثناء اسی معاملے پر مسلم لیگ کے کئی رہنماؤں جن میں مشرقی پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ سہروردی بھی شامل تھے، نے مسلم لیگ چھوڑ کر عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور مجیب الرحمان بھی اس میں شامل ہو گئے۔

1953 میں مجیب الرحمان مشرقی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اسی سال انہیں عوامی مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری بھی منتخب کر لیا گیا۔

1963 میں سہروردی کی وفات کے بعد مجیب الرحمان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ مقرر ہو گئے اور بعد میں عوامی مسلم لیگ نے سیکولر جہت میں راستہ متعین کرتے ہوئے اپنے نام کو عوامی لیگ کر لیا۔

اس دوران فاطمہ جناح نے ملک میں فوجی آمریت اور ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا، تو مجیب الرحمان فاطمہ جناح کے ساتھ تھے۔ 1964 کے انتخابات میں عوامی لیگ نے فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی، جب کہ اس انتخاب سے دو ہفتے قبل مجیب الرحمان کو ’غداری‘ کے الزامات عائد کر کے گرفتار کر لیا گیا، جب کہ اس دوران فاطمہ جناح کو بھی ’غیرملکی ایجنٹ‘ اور ’دشمن ملک کی آلہ کار‘ کا لقب دیا گیا۔

ملک بھر میں آمریت کی زور پکڑتی جڑوں اور غیرجمہوری اقدامات کے تناظر میں بنگال سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں عوامی لیگ نے مظاہرے شروع کر دیے، جب کہ اس دوران جو مطالبات رکھے گئے وہ کچھ یوں تھے۔ ملکی دستور کے ذریعے قراردادِ لاہور (قراردادِ پاکستان) کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم کیے جائے، جس میں برتری قانون ساز اسمبلی کی ہو، جو پاکستانی قوم منتخب کرے۔

وفاقی حکومت دفاع اور خارجہ جیسے بنیادی امور دیکھے، جب کہ ذیلی معاملات کو ریاستوں کے سپرد کیا جائے۔

سرمایے کی مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان منتقلی روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔

مشرقی پاکستان میں مقامی پیراملٹری فورسز قائم کی جائیں۔ یعنی فوج ملک کی ہو لیکن مقامی اور داخلی سلامتی کا انتظام ریاستوں کو دیا جائے۔

اس کے علاوہ دیگر چند موضوعات بھی مطالبات میں شامل تھے۔ تاہم یہ مطالبات کیے جانے کا سیاق ایک تو ملک میں فوجی آمریت تھی اور دوسرا زیادہ آبادی ہونے کے باوجود سرکاری محکموں میں بنگالی شہریوں کی نہایت قلیل تعداد حالاں کہ بنگال کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ان کے مطابق ان کے ساتھ مسلسل ناانصافی روا رکھی جا رہی تھی۔

کسی بھی صورت میں یہ معاملات فقط سیاسی نوعیت کے تھے اور سیاسی انداز سے بات چیت کے ذریعے انہیں حل کیا جا سکتا تھا۔ تاہم اس تمام عرصے میں ملک کی فیلڈ مارشل ایوب خان اور ان کے حواری جرنیلوں نے پروپیگنڈا کے ذریعے مجیب الرحمان اور فاطمہ جناح کو ملک دشمن، ضمیر فروش، بھارتی ایجنٹ، غدار اور اس جیسے القابات دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

ان مطالبات کے جواب میں بھی مجیب الرحمان اور ان کی جماعت کے ساتھ سیاسی مکالمت کی بجائے مجیب الرحمان کو فوج نے گرفتار کر لیا اور وہ دو سال تھا جیل میں بند رہے، تاہم اس دوران مشرقی پاکستان میں احتجاج اور مظاہروں میں شدت آتی چلی گئی۔

جب مجیب الرحمان جیل سے رہا ہوئے تو ایوب خان مخالف تحریک کا آغاز ہو گیا اور مجیب الرحمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ شدید عوامی دباؤ پر فروری 1969 میں ان پر غداری اور ملک دشمنی جیسے الزامات ختم ہوئے اور وہ رہا ہوئے تو پانچ مارچ 1969 کو مجیب الرحمان نے اپنے مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کے تناظر میں عوامی طور پر پہلی مرتبہ کہا کہ لفظ بنگلہ خلیج بنگال کے علاوہ ہر جگہ سے ختم کر دیا گیا ہے اور آج وہ پاکستان کی معرفت سے ایسٹ پاکستان کو ’بنگلہ دیش‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں انہیں ایک ہیرو سمجھا جانے لگا۔

ادھر ایوب خان سے اقتدار جنرل یحیٰ خان کو منتقل ہو گیا۔ سیلابوں اور بارشوں کے خلاف مرکزی حکومت کے انتہائی ناقص ردعمل اور امدادی سرگرمیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں شدید غم غصہ پایا جاتا تھا اور اسی تناظر میں 1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے بھاری کامیابی حاصل کی۔

https://www.youtube.com/watch?v=TQpVTr4VBxs&t=339s

مشرقی پاکستان سے مجیب الرحمان اور ان کی جماعت نے دو کے علاوہ تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور زیادہ علاقائی خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ ان کے پہلے ہی کہے گئے مطالبات میں سے ایک تھا۔ اس کے علاوہ دستور کے مطابق ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کی بنا پر انہیں حکومت سازی کا حق دینے کی بجائے مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے عوامی لیگ کے یہ مطالبات مسترد کر دیے۔ اس دوران جنرل یحییٰ خان اور فوج بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے اور مجیب الرحمان اور ان کی پارلیمانی اکثریت کو مسترد کر دیا گیا۔ تاہم حالات خراب تر ہوتے چلے گئے۔

ملک میں خانہ جنگی کے خدشے کے پیش نظر بھٹو نے فوج سے چھپ کر اپنے ایک انتہائی قریبی ساتھی کو مجیب الرحمان کے پاس بھیجا اور مکالمت کے ساتھ طے یہ پایا کہ حکومت قائم کی جائے، جس میں بھٹو صدر جب کہ مجیب الرحمان وزیراعظم کے عہدوں پر فائز ہوں۔ جب کہ یحییٰ خان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ حکومت تحلیل کریں اور اقتدار عوامی نمائندوں کے سپرد کریں۔

تاہم تمام تر سیاسی دباؤ کے باوجود یحییٰ خان نے نئی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کو ملتوی رکھا۔ اس التوا کو مشرقی پاکستان کے عوام نے مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل کرنے سے بچنے کا طریقہ سمجھا اور وہاں مظاہرے پھوٹ پڑے اور سول نافرمانی کی تحریک شروع ہو گئی جب کہ فوج پر حملے بھی شروع ہو گئے۔ کیوں کہ ان افراد کے مطابق اقتدار کو سویلین حکومت کو منتقل نہ کرنے کی ذمہ داری پاکستانی فوج تھی۔

اس دوران فوج نے مجیب الرحمان کو رات و رات گرفتار کر لیا اور مغربی پاکستان منتقل کر دیا۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت شروع ہو گئی جب کہ یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کر دیا، جب کہ بنگالی جنرل عثمانی کی قیادت میں ’مکتی باہنی‘ نے فوج کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر دی۔ اس دوران 1971 میں بھارت نے بھی مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان میں مشرقی پاکستانی فوجی کمان کے سربراہ جنرل عامر عبداللہ خان نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں قریب 93 ہزار پاکستانی فوجی تھے، جب کہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے ساتھ اس معاہدے کے تحت بھارتی فورسز نے پاکستانی فوج کے خلاف اپنا آپریشن ختم کر دیا۔ پاکستان کی مشرقی فوجی کمان اور بھارتی فوج کے درمیان اس معاہدے کو ’انسٹرومنٹ آف سرنڈر‘ قرار دیا جاتا ہے اور اس معاہدے کے تحت جنرل نیازی نے مشرقی پاکستانی فوج کو جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے حکم کے تابع رہنے کے احکامات دیے اور انہیں ’جنگی قیدی‘ بنا لیا گیا۔ جب کہ بنگلہ دیش نے آزادی کا اعلان کر دیا۔

آٹھ جنوری 1972 کو شدید بین الاقوامی دباؤ کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کو رہا کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان روالپنڈی میں ملاقات میں بھٹو نے مجیب الرحمان سے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان چند روابط موجود رہیں، تاہم مجیب الرحمان نے یہ پیش کش یہ کہہ کر موخر کر دی کہ وہ اس بابت کسی بھی فیصلے سے قبل اپنے بنگلہ دیش جانا اور اپنے ساتھیوں سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ہمارا نصف ملک اور پاکستان کو مشرقی بازو ہم سے الگ ہو گیا۔

اس پورے عرصے میں کئی ایسے مواقع تھے کہ اس نفرت انگیزی کو روکا جا سکتا تھا۔ مکالمت سے ملک کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ عسکری کی بجائے سیاسی انداز سے اس مسئلے کو نمٹایا جا سکتا تھا۔ مگر مسلسل ہٹ دھرمی اور مسلسل نادرست پالیسی اس ملک کے مشرقی بازو کے کٹنے کا سبب بنی۔

خوف ناک بات یہ ہے کہ پاکستانی تاریخ کے اس بدترین سانحے کے باوجود ہمارے حکم رانوں اور خاص طور پر جرنیلوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ان کے لیے شاید یہ بھی ایک معمولی سی بات تھی۔ اس واقعے کے بعد یہ طے ہو جانا چاہیے تھا کہ اب ملک کے کسی بھی صوبے، کسی بھی زبان اور کسی بھی قومیت کے ساتھ غیرمساوی سلوک نہیں ہو گا اور دستور کے مطابق تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیے جائیں گے، تاہم بدقسمتی سے یہ راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔

اس ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ملک کی وحدنیت کی ضمانت اس کے لوگوں سے وابستہ ہے اور یہ ملک صرف تب زندہ باد ہو گا، جب اس پر بسنے والا ایک ایک شہری زندہ و تابندہ باد ہو گا۔

پشتون تحفظ موومنٹ میں موجود لوگ ہمارے ملک کے باشندے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنے، ان کی بات سننے، سیاسی مکالمت کرنے، غدار اور ایجنٹ جیسے القابات کی بجائے ان کے ساتھ گفت و شنید اور جائز اور قانونی مطالبات کو تسلیم کر کے اس ملک کو ایک نئی پریشانی اور انتشار سے بچایا جا سکتا ہے۔

ہماری طاقت ہمارے لوگ ہیں۔ پاکستان، پاکستانی قوم ہے۔

پاکستان زندہ باد، پاکستانی قوم پائندہ باد