پشتون تحفظ تحریک اور غیر ملکی ایجنڈا
حمزہ سلیم
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخواہ کے شہر پشاور میں تین روز پہلے پشتون تحفظ تحریک کے زیراہتمام ایک بہت بڑا اجتماع کیا گیا۔ اس اجتماع میں خبیر پختونخواہ، قبائلی علاقہ جات،کراچی، پشاور اور ملک کے دیگرحصوں سے بہت بڑی تعداد میں پشتون شریک ہوئے۔ ان پشتونوں نے اس اجتماع میں وہی مطالبات دہرائے جو اسلام آباد کے پرامن دھڑنے میں دہرائے گئے تھے۔ ان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ وہ افراد جو کئی سالوں سے لاپتہ ہیں، انہیں بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ پشتون تحفظ تحریک نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد کراچی سے شروع ہوئی تھی، جب کہ اس سے قبل منظور پشتین اور ان کی تحریک فاٹا کے علاقے تک محدود تھی۔ نقیب محسود کے قاتل کی گرفتاری کے لیے اس تحریک کا سب سے بڑا دھڑنا اسلام میں جنوری میں ہوا تھا۔ اس دھڑنے کو ختم کرنے کے لیے ریاست پاکستان اور حکومت نے کچھ وعدے وعید کیے تھے۔ ان وعدوں کی تکمیل کے لیے ریاست و حکومت نے ایک ماہ کا وقت دیا تھا۔ اسی حوالے سے پشتون تحفظ تحریک کے ایک وفد نے وزیر اعظم جناب خاقان عباسی سے ملاقات بھی کی تھی۔
اس ملاقات میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں خونی بارودی سرنگوں کو صاف کیا جائے،کئی سالوں سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیا جائے، چیک پوسٹوں پر پشتونوں کی عزت و احترام کو بحال کیا جائے، اس کے علاوہ سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ نقیب کے قاتل راؤ انوار کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ پشتونوں کے مطابق ان کے بہت سے مطالبات ابھی تک پورے نہیں کیے جاسکے، البتہ بدنام زمانہ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو گرفتار کر کے، اس پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
پشاور میں ہونے والے جلسے میں کسی سیاسی جماعت کا جھنڈہ نظر نہیں آیا۔ احتجاج کرنے والوں نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر لکھا تھا کہ لاپتہ افراد کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پشتون آئین اور قانون کے تحت اپنے حقوق مانگ رہے ہیں اور وہ بھی پرامن انداز میں۔ اہم سیاسی جماعتیں اور مین اسٹریم میڈیا پشتون تحفظ تحریک کو منہ نہیں لگا رہا۔ البتہ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں پاکستان کے پشتون نوجوانوں نے کسی مالی مدد کے بغیر ایک بہت بڑا شو کر دیا ہے۔ یہ پشتون نوجوان اپنے حقیقی ایشوز سامنے لے کر آئے ہیں، یہ اچھی بات ہے کہ وہ پرامن انداز میں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، لیکن میڈیا ان نوجوانوں کی تحریک کو کور نہیں کررہا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا یا سیاسی جماعتیں ان سے اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان کے نوجوان باہر نکلتے ہیں، ایشوز اٹھاتے ہیں، سوال کرتے ہیں، اس لیے ان سے بات کرنی چاہیے۔
ان کو مین اسٹریم سیاست میں لایا جائے اور میڈیا پر ان کی آواز کو سنا جائے، ایسا نہیں ہوگا تو خطرناک صورتحال پیدا ہو جائیں گی۔کوئی بلاول کو یا پیپلز پارٹی کو پسند کرے یا نہ کرے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بلاول نے ایک حقیقیت بیان کی ہے۔
بلاول کی ان باتوں سے اتفاق کرنا ہوگا،عمران خان، نوازشریف صاحب پشتون تحفظ تحریک پر بات نہیں کر رہے، لیکن بلاول کر رہا ہے، یہ بات قابل غور ہے۔ ریاست پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو دیوار سے لگانے کی بجائے، انہیں گلے لگائے، ان کے مطالبات سنے۔ غم و غصے کی آواز کو ایسے ہی رد نہیں کیا جانا چاہیے۔
پشتون تحفظ تحریک کی بہت سی باتوں سے میں خود اتفاق نہیں کرتا، جیسے ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘، لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ ان پر شک کرنے کی بجائے ان کی باتوں کو سنا جائے ؟ریاست کے لیے پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں اور ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ ماں بچوں کو دھتکارتی نہیں، نہ ہی نفرت کرتی ہے، بلکہ بچوں سے پیار اور محبت کرتی ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ ان پشتون نوجوانوں کو سینے سے لگائے۔ ابھی بھی وہ ریاست پر اعتماد کرتے ہیں، یہ اعتماد ہی تو ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج اور دھرنے کررہے ہیں۔
ٹھیک ہے کہ ان کے جلسوں اور دھڑنوں میں بہت سے ایسے نعرے بلند ہوتے ہیں جن سے ہم اتفاق نہیں کرسکتے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس تحریک کے پیچھے غیر ملکی ایجنڈا ہو، لیکن ان کو موقع کیوں دیا جائے، ان سے بات کی جائے اور ریاست ان سے ماں جیسا سلوک کرے۔ بات اس لیے بھی کی جانا چاہیے کہ معلوم ہو کہ یہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں، ان کا حقیقی ایجندا کہیں کچھ اور تو نہیں۔
شک کی بنیاد پر ہی بات کر لیں، لیکن بات ضرور کریں اور ان کے بہت سارے مطالبات حل ہو سکتے ہیں،کم از کم فوری طور پر یہ مطالبات پورے کیے جائیں تاکہ دشمنوں کو کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ ان کے پاس آئیں اور دیکھیں ،ان کا کیا کھیل ہے ،کیا ایجنڈا ہے، لیکن ان کو تنہا مت چھوڑیں۔ بہت سارے افراد یا سیاسی جماعتیں اس تحریک کے خلاف ریاست کے کان بھریں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی دکانداری کو خطرات لاحق ہیں۔
پشاور جلسے میں اس تحریک کے روح رواں منظور پشتین نے واضح کہا ہے کہ وہ غیر ملکی ایجنڈے پر کام نہیں کررہے ہیں۔ اس لیے ان کے مطالبات پر غور کریں اور مسائل کا حل نکالیں۔ طالبان نے اسلحہ اٹھایا تھا اور ریاست کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے، ہم نے کہا یہ طالبان بھی ہمارے لوگ ہیں۔ یہ پشتون تحفظ تحریک والے تو خالصتا سیاسی لوگ ہیں۔ یہ اپنے ہیں اور گمراہ بھی نہیں ہوئے، تو ان سے بات چیت کرنے میں کیا حرج ہے؟
راؤ انوار اگر گرفتار ہوا ہے تو اس میں پشتون تحفظ تحریک کے نوجوانوں کا کردار ہے۔ اگر فاٹا اصلاحات بہت جلد کر دی جاتیں اور فاٹا کو مین اسٹریم میں لایا جاتا تو آج پشتون تحفظ تحریک پیدا نہ ہوتی۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جیسے کراچی ،لاہور اور ملک کے دیگر شہروں کے لوگوں کو حقوق حاصل ہیں، ویسے ہی حقوق اور برابری ان کا بھی حق ہے، ان کے اس مطالبے میں کیا سازش ہو سکتی ہے؟
اب بائیس اپریل کو پشتون تحفظ تحریک کا لاہور میں اور 29 اپریل کو سوات میں جلسہ ہے۔ امید ہے میڈیا پر بھی ان کو کوریج ملے گی اور ریاست بھی ایک ہمدرد ماں کی طرح ان کے مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔