پشتون تحفظ موومنٹ اور ریاست کی نیت
عابد حسین
پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم انسانی، سماجی اور آئینی و قانونی دائرے میں رہ کر شہری حقوق اور عدم تشدد کا پرچار کرنے والی ایک جانی مانی تحریک بن چکی ہے۔ جو کہ پشتون بیلٹ سمیت ملک کے اندر دوسرے علاقوں میں بھی ظلم و ناانصافی کے خلاف ہمیشہ کھڑی ہوتی ہے، باالخصوص پشتونوں اور باالعموم تمام پسے ہوئے طبقات کے لیئے آواز اٹھانے والی تحریک، لیکن اس تحریک کے مطالبات کو سننے اور سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے ریاست اس تحریک اور اس سے وابستہ افراد کو ملک دشمن، غدار اور بیرونی ایجنٹ قرار دینے پر تلی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے راہنما علی وزیر، حنیف پشتین، ڈاکٹر سید عالم محسود، ثناء اعجاز، تیمور عالم محسود، حاجی محمد شیر، بصیر، نور اللہ ترین پابند سلاسل کردیئے گئے ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے ایک دفعہ پشتون تحفظ موومنٹ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی جو کہ اس شرط پر قبول کی گئی تھی کہ ان کے جائز مطالبات کو مانا جائے گا اور بااختیار حکومتی نمائندگان جو فیصلہ کرنے کی جرأت اور طاقت رکھتے ہوں کے ساتھ ہی مذاکرات کیئے جائیں گے، لیکن کئ مہینے گزرنے کے باوجود حکومتی نمائندہ کہیں کوئی نام و نشان نہیں۔
پی ٹی ایم کا میڈیا بلیک آوٹ کیا گیا ہے، جہاں کہیں بھی کوئی احتجاج یا جلسہ کیا جاتا ہے، وہاں موبائل سروس بندش، انٹرنیٹ سروس بند کردیا جاتا ہے۔ پی ٹی ایم مشران اور کارکنان کو جلسوں میں شرکت کرنے سے زبردستی روکا جاتا ہے، کارکنان کو گرفتار کیا جاتا ہے، غداری، را ایجنٹس ہونے، فارن فنڈنگ کا پروپگینڈہ کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اندر حکومتی وزراء جبکہ میڈیا میں کچھ لانچڈ قسم کے میڈیا ورکرز کو پروپگینڈہ ٹول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ابھی بھی پی ٹی ایم کے کئی رہنماء و کارکنان گرفتار ہیں۔ پی ٹی ایم رہنماء ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے خلاف غداری کا مقدمہ کراچی جلسے کے بعد درج کیا گیا۔ انہیں پشاور سے گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا گیا، اور اب بھی وہ جوڈیشل ریمانڈ پر پولیس کسٹڈی میں ہیں۔ اسی طرح پی ٹی ایم کارکن حنیف پشتین ایسے ہی مقدمے میں بنوں جیل میں زیر حراست ہیں۔ پی ٹی ایم کراچی کے ساتھی حاجی محمد شیر محسود، نور اللہ ترین اور بصیر کراچی میں زیر حراست ہیں کیونکہ انہوں نے ممبر قومی اسمبلی پی ٹی ایم رہنماء علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ اسی ماہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک اور رہنماء اور پختونخواہ اولسی تحریک کے بانی پشاور کے مشہور پیڈیاٹرک سرجن ڈاکٹر سید عالم کو رات کے وقت ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا کیونکہ 3 جنوری کے دن سید عالم محسود صاحب ساتھیوں سمیت پشاور پریس کلب کے سامنے علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔5 جنوری کی شام کو ڈاکٹر سید عالم محسود کے بیٹے تیمور عالم محسود کو اس بناء پر گرفتار کیا گیا کیونکہ والد کی گرفتاری کے روز تیمور عالم نے انڈرائیڈ فون سے تمام کاوروائی ریکارڈ کرلی تھی جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔
اسی طرح انسانی حقوق کے لیئے کام کرنے والی، سوشل ورکر، قومی و بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ صحافی اور کسی زمانے میں پی ٹی وی پشاور سے وابستہ پی ٹی ایم سینٹرل کمیٹی کی ممبر ثناء اعجاز کو بھی غداری کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مشران و کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ان کو گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا جاتا ہے۔ حکومت حالات کو سمجھنے یا مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے زیر حکم ایک محکمے سے سوال کرنے کے بجائے، ان کو ماورائے آئین و قانون مقدموں اور گرفتاریوں سے روکنے کے بجائے انہیں شہہ دے رہی ہے۔ جس کی زندہ مثال چند دن پہلے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا بیان اور پھر آرڈیننس پاس کرنا ہے کہ جس میں شیخ صاحب نے کہا کہ فوج اور اداروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف بہتر گھنٹے میں مقدمہ درج ہوگا لیکن موصوف نے یہ کہنا ضروری نہیں سمجھا کہ اگر تنقید درست اور سچ ہو تو پھر اس کی تحقیقات بھی ہونے چاہیے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے سادہ مطالبات ہیں کہ ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کی شفاف تحقیقات کی جائے، پروفیسر ارمان لونی، حیات بلوچ، خڑ کمر، خیسور واقعات کی تحقیقات کی جائے، عارف وزیر کے قتل کی تحقیقات کی جائے، مسنگ پرسنز جو کہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ان کو عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا جائے، اگر کسی بھی گرفتار فرد کے خلاف کسی قسم کی بھی ملک دشمنی، دہشت گردی،غداری، بیرونی فنڈنگ کے ثبوت مل جائیں تو اس کو قانون کے مطابق قرار وقعی سزا دی جائے، اور جو بے گناہ ہے اس کو رہا کیا جائے، قبائلی اضلاع میں جہاں مائینز بچھائے گئے ہیں ان کو صاف کیا جائے، جگہ جگہ قائم چیک پوسٹس کو ختم کیا جائے، قبائلی اضلاع میں اگر کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آئے تو نوجوانوں، بڑے بوڑھوں کو گھروں سے اٹھانے اور گھروں پر چڑھائی کے بجائے دہشت گردوں کو علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیئے مؤثر لائحہ عمل بنایا جائے، کیوں کہ بارڈر پر خاردار تار لگائے گئے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کا پہرہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں کوئی عام آدمی اپنے علاقے، گاؤں یا گھر جاتا ہو تو اس کی بھی چیک پوسٹس پر جامہ تلاشی کی جاتی ہے اور شناخت پریڈ کیا جاتا ہے۔ علاقے میں فورسز گشت کرتے ہیں، گھروں کی تلاشی بھی لی جاتی ہے، مقامیوں سے ذاتی اسلحہ وغیرہ بھی لے لیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی عام لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اورپوچھا جاتا ہے کہ دہشت گرد کہاں ہے؟
جبکہ قبائلی اضلاع میں گڈ طالبان اسلحے سمیت نظر آتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اے پی ایس واقعے کی مکمل رپورٹ کیوں پبلک نہیں کی گئی، احسان اللہ احسان کیسے فرار ہوا ان سب کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ممبران اسمبلی کو بغیر کسی پروڈکشن آرڈر اور اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار کرنے کے بجائے ان کے خلاف پہلے ایف آئی درج کرکے، نوٹس دے کر عدالت میں پیش ہونے کا کہا جائے۔ پی ٹی ایم مشران محسن داوڑ، علی وزیر، سید عالم محسود، ثناء اعجاز اور دوسرے ساتھیوں پر اندرون و بیرون ملک سفری پابندیوں کو ہٹایا جائے۔ پی ٹی ایم کارکنان و مشران کو بغیر کسی وجہ کے ان پر غداری کے مقدمے بناکر گرفتار نہ کیا جائے۔ اگر حکومت، فوج یا خفیہ ایجنسیز کے پاس کسی بھی پی ٹی ایم رہنماء یا کارکن کے خلاف بیرونی ایجنٹ، بیرونی فنڈنگ، ملک دشمنی و غداری کے ثبوت موجود ہیں تو انہیں قوم کے سامنے پیش کیا جائے، میڈیا پر لایا جائے، عدالت میں کیس فائل کرکے ثابت کیا جائے، اگر کچھ بھی ان میں سے ثابت ہوجائے تو بے شک جو غدار اور جاسوس کی سزا آئین میں ہے وہی سزا دی جائے، لیکن مار پیٹ، گرفتاریاں، غداری کے مقدمے، بیرونی ایجٹنس ہونے کے الزامات، بیرونی فںنڈنگ کا پروپگینڈہ، میڈیا بلیک آوٹ، ملک دشمنی کا الزام، کسی بھی میڈیا گروپ کوریج نہ ملنا یا پی ٹی ایم کے کسی جلسے کی کوریج نہ کرنا اداروں اور ریاست کی نیت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
جب کبھی بھی پشتون تحفظ موومنٹ کا کوئی کارکن یا ,کوئی رہنماء مذکورہ بالا باتوں کا مطالبہ کرتا ہے تب ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اور پھر اگر وہ کسی احتجاج اور جلسے میں خفیہ ایجنسیز، فوج یا پولیس کی جانب سے اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کے بارے میں سچ بولتے ہیں تو یہ لوگ چیخنے لگتے ہیں کہ دیکھو! ایسے لوگوں سے کیسے مذاکرات ہوسکتے ہیں! کہ جو ”یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے“ کا نعرہ لگاتے ہوں۔
آپ ان کو بلائیں، ان کا چیلنج قبول کریں، مذاکرات کریں، جو مسائل اور مطالبات حل طلب ہیں ان کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائیں اور لائحہ عمل طے کریں۔ اس کے بعد بھی اگر پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے کوئی بھی غیر قانونی، غیر آئینی مطالبہ سامنے آتا ہے تو شک ہمیں سزا دیں لیکن اگر آپ آئینی و قانونی مطالبات کو بھی ماننے کو تیار نہیں، دہشت گردوں کے بجائے غریب عوام کو مار پیٹ کے ڈرانے دھمکانے کوشش کریں، ہر مسئلے کو بہ زور طاقت حل کرنے کو ہی درست سمجھتے ہوں، اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر گراتے ہوں، سیکیورٹی لیپس اور اپنی ناکامی چھپانے کے لیئے کسی اور پر الزام لگاتے ہوں، اپنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان پر نمک پاشی کرتے ہوں، اپنوں کو گلے لگانے کے بجائے ان کو طاقت سے دبانے پر ہی عمل پیرا ہوں تو یقین جانیے! نفرت اور بد اعتمادی اور بھی بڑھے گی، فاصلے اور بھی بڑھیں گے، حالات درست ہونے کے بجائے اور بھی بگڑیں گے۔
یقین جانیے! بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ کے معصوم لوگوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اس سے قومی و ریاستی یکجہتی کو انتہائی خطرہ ہے، وہ بے چارے نعشوں کو رکھ کر احتجاج کرتے رہے، وزیراعظم کو پکارتے رہے، مطالبات کی عرضیاں بھیجتے رہے لیکن وزیراعظم نے بے حسی کی انتہا کردی۔ اگر وزیر اعظم ہزاروں کام چھوڑ کر بغیر ان کے مطالبے کے وہاں پہنچ جاتے اور ان کے درد کو بانٹتے تو ہزارہ خود کو یتیم نہ سمجھتے۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے منظور پشتین اور پی ٹی ایم کو جنم دیا ہے، یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے بداعتمادی، بے یقینی کی فضاء قائم ہوئی ہے، یہی وہ رویہ ہے جس نے پہلے بھی مملکت خداد کو دولخت کیا تھا، یہی وہ رویہ ہے جو کہ مشرقی پاکستان والوں کے ساتھ اپنایا گیا تھا اور اب پشتونوں، بلوچوں، ہزارہ، سندھی، مہاجر اور گلگت بلتستان کے عوام سے اپنایا گیا ہے۔ یاد رکھیے! یہ ریاستی رویہ اس ملک کی بقاء کے لیئے زہر قاتل ثابت ہوگا، یاد رکھیے گا!