پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے کے وقت میڈیا کہاں تھا؟

عاطف توقیر

پاکستان میں میڈیا پر طرح طرح کے پروگرام ہر روز اس قوم کو منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ کوئی چوہے سے تیل بنانے والے پر چھاپے مارتا ملتا ہے، کوئی پارک میں بیٹھے پریمیوں کو خالہ جان بن کر کیمرے سے دھمکاتا ہے، کوئی شراب کی بوتلیں پکڑ رہا ہے، کوئی جیل میں قیدی کا گریبان نوچ رہا ہے۔ مگر یہ تمام جرائم تو اس تباہ حال معاشرے کی جہت کا نتیجہ ہیں، اصل جرم تو کچھ اور تھا، جس پر یہ میڈیا بھی خاموش رہتا ہے اور کیمرہ بھی اندھا ہو جاتا ہے۔

یہ میڈیا جی ایچ کیو کی بنائی ہوئی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں جن کا کام عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ جرنیلوں کی پالیسیوں کا تحفظ ہے، کہیں کوئی پریس کانفرنس کر بیٹھیں، تو ان کے مائیک کھولنے سے لے کر پریس کانفرنس ختم کرنے کے بعد رومال سے ماتھا جھاڑنے تک کے بیچ ایک ایک چھینک بھی بریکنگ نیوز کی صورت میں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔

مولوی خادم حسین رضوی جیسے ذہنی مریضوں اور نفرت کا پرچار کرنے والوں کی گالیوں کی مکمل عکاسی سے لے کر ان کے منقولات پر گھنٹوں بحث ہو یا کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹر میں بننے والے جماعتوں کے اندرونی جھگڑے، ملک بھر کا میڈیا نہایت مفکرانہ انداز سے ایک ایک شے پر روشنی ڈالتا ملتا ہے۔ پاکستان زندہ باد کے نام سے پھر راولپنڈی میں ترتیب پانے والی پارٹی میں چار سو لوگ جمع ہو جائیں اور پھر عوام کے حقوق اور دیس کی جہت کی بات کرنے کی بجائے گھٹیا اور سستے نعرے فروخت کرنے والوں کی خودساختہ اور مصنوعی تحریک شروع کی جائے، تو بھی آپ کو ایسے کسی جلسے کو پورا احوال پوری تفصیل سے دکھائی دے گا۔

مگر پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں اور احتجاجی مارچ کو پاکستانی میڈیا نے سرے سے نظرانداز کر دیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح میڈیا کے کیمرے کی آنکھ کبھی لاپتا افراد کے سوگ میں ہلکان ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بچوں پر کبھی نہیں پڑتی، بالکل اسی طرح جیسے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں اس کیمرے کو کبھی دکھائی نہیں دیں، بالکل اسی طرح جس طرح گلگت بلتستان میں اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والے ہزاروں افراد کے مجمعے میڈیا میڈیا پکارتے رہے مگر کیمرہ وہاں آنکھیں بند کر کے پڑا رہا۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں امن اور حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں پر پولیس اور سکیورٹی دستے ڈنڈے اور آنسوگیس برساتے رہے، گولیاں داغتے رہے، مگر میڈیا دوسری طرف منہ کر کے سیاست دانوں کو گالیاں دینے میں مصروف رہا۔

سوال یہ ہے کہ میڈیا کے اس رویے کی وجہ کیا ہے؟ کیا سیاست دانوں نے اسے روک رکھا ہے؟ کیا پیمرا کا کوئی حکم ہے کہ پرامن جلسوں کی کوریج نہ کی جائے؟ یا محرکات کچھ اور ہیں؟

کچھ روز قبل اچانک جیو ٹی وی کو ملک کے بیشتر حصوں میں کیبل سے غائب کر دیا گیا۔ وفاقی حکومت، وزراء اور پیمرا سب نے واضح انداز میں کہا کہ انہیں اس طرح کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ دوسری جانب دیگر میڈیا اداروں اور صحافیوں کو بھی اچانک سانپ سونگھ گیا اور وہ مکمل طور پر معاملے کو صرف نظر کرتے رہے۔ ٹی وی پر حکومتی وزرا نے برملا کہا کہ نہ تو کسی وزارت کی جانب سے کوئی ایسا نوٹس دیا گیا ہے اور نہ ہی پیمرا نے ایسے کوئی احکامات جاری کیے ہیں۔ ملک میں میڈیا سے متعلق قوانین موجود ہیں اور اگر کوئی نشریاتی ادارے ان قوانین کو توڑتا ہے، تو اس کا جواب بھی اسے بغیر بتائے یا بغیر قانونی راستہ اپنا آف ایئر کرنے کا نہیں بلکہ عدالتی اور قانونی چارہ جوئی کا ہے۔

اس پورے معاملے سے نتیجہ یہی نکلا کہ پاکستان پر دیکھنے کو ایک جمہوریت قائم ہے اور حکومت بھی، مگر نہ یہ جمہوریت ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی حکومت۔ یہاں اختیارات پر تمام تر قبضہ فوجی جرنیلوں اور جی ایچ کیو کا ہے، جو اس ملک کے میڈیا اور صحافیوں کو بندوق کے زور پر ہانک کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو جو بنیادی انسانی حقوق، جمہوری رویوں یا آزادی اظہار رائے کا نعرہ لگائے گا، اسے دشمن سمجھا جائے گا۔

پشاور جلسے کے وقت اس پورے علاقے میں موبائل سنگلز روکنا اور تمام تر میڈیا ہاؤسز کو کوریج سے منع کرنا وہ راستہ تھا، جس نے ملک میں ایک نئی تباہی کی بنیاد ڈال دی ہے۔

پاکستان میں جی ایچ کیو پوری قوت سے اس کوشش میں ہے کہ عوام تک خبروں کی آزادنہ رسائی کا راستہ روکے رکھا جائے، تاکہ ان کی پروپیگنڈا مشینری سے نکلنے والا مواد بالکل اسی طرح اس قوم کے دماغ دھندلے بناتا رہے، جیسا پچھلے ستر سال سے ہو رہا ہے۔

جب انیس سو اکہتر میں پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہوا، وہاں ہماری اپنی فوج اور دیگر اداروں کی جانب سے انسانی تاریخ کی بدترین درندگی کا مظاہرہ کیا گیا، اس وقت بھی ملک کے مغربی بازو میں بسنے والے لوگوں کو اس پوری صورت حال سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ ہم جان تک نہ پائے کہ ہمارے بنگالی بھائیوں کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹھیک اس وقت جب جنرل نیازی بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط فرما رہے تھے، ہمارے ہاں ریڈیو پر ’جنگ کھیڈ نئیں اے زنانیاں دی‘‘ یعنی جنگ عورتوں کا کھیل نہیں ہے (تب کی بھارتی وزیراعظم اندھرا گاندھی کے حوالے سے) گیت چلایا جا رہا تھا، یعنی ریڈیو پر یہ گیت چلانے والے پروڈیوسر تک کو معلوم نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان ملک سے الگ ہو چکا ہے۔

فوجی اشرافیہ نے اس کھیل  سے میڈیا کے ادارے کو تباہ کیا۔ اس سے پہلے یہی جی ایچ کیو ایک ایک کر کے ہمارے دیگر ادارے تباہ کرتا چلا گیا۔ ہمارے ہاں موٹر وے پولیس، جو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی، اس کے سارجنٹ کو ذلیل کر کے اس نئے مگر بہتر ادارے کو تباہ کیا گیا۔ اس سے پہلے عدالتوں سے اپنی جعلی، غیرقانونی اور غیردستوری اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت طاقت کے زور پر جائز قرار دلوا کر ہماری عدلیہ کو کم زور بنایا گیا۔ ہمارے ہاں عوامی سیاسی تحریکوں اور رہنماؤں کو سیاسی دھارے سے باہر پھینک کر، غدار اور غیرملکی ایجنٹ کے القابات دے کر ان کی جگہ مصنوعی رہنما پیدا کیے گئے اور اس ملک سے جمہوریت اور سیاست کا جنازہ نکالا گیا۔ اس ملک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر وہ ادارہ جو اپنے پیروں پر کھڑا تھا یا کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا تھا، فوجی حکمت عملی کی نذر ہو گیا۔

پچھلے کچھ عرصے سے میڈیا کا ادارہ ملک میں بہت سے چینلز ہونے کی وجہ سے کسی حد تک جڑ پکڑ رہا تھا، مگر اس نئے انداز کے مارشل لا نے اس کی جڑ بھی کاٹ  دی۔

دنیا کا کوئی ملک کسی ایک ادارے سے قائم نہیں رہتا۔ کسی ملک کی بقا وہاں موجود مضبوط اداروں کی مرہون منت ہوتی ہے اور اداروں کی کم زوری ملکی بقا کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔

اس پوری صورت حال سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان بالکل محفوظ نہیں اور پاکستان کو غیرمحفوظ بنانے والے ٹھیک وہی لوگ ہیں، جن کے ہاتھوں میں ہم نے دستوری طریقے سے اس دیس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی۔

پشتون تحفظ موومنٹ روز بہ روز زور پکڑتی جائے گی اور اگر اس ملک کے اصل حکم رانوں یعنی جرنیلوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے، تو یہ اس ملک کو ایک نئے سانحے سے دوچار کر دیں گے۔

ہر ہر علاقے سے اب عوام بغیر سیاسی جماعتوں پر تکیہ کیے، بغیر رہنماؤں پر بھروسا کیے خود باہر نکلیں، بالکل ویسے ہی، جیسے پشتون نکلے ہیں اور اپنے جمہوری حقوق اور سیاسی آزادی کے لیے اپنی بھرپور آواز اٹھائیں۔ اگر آج ہم اس جرنیلی اشرافیہ کے سامنے دیس اور دستور کے تحفظ کے لیے کھڑے نہیں ہوئے، تو سمجھ لیجیے کہ خداناخواستہ اس دھرتی کو نئی تقسیم اور ہمیں ایک نئے سانحے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔