پشتون تحفظ موومنٹ کے نام

محمد طلحہ ایڈووکیٹ

ڈیورنڈ لائن سے ملحقہ قبائلی علاقہ جات کو ریاستی مائینڈ سیٹ نے 70 سال دانستہ طور پر انگریز کے دیئے ہوئے بدنام زمانہ قانون ایف۔سی۔آر کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل دیا تاکہ ضرورت کے وقت انکو سامراجی مفادات کی خاطر بروئے کار لایاجاسکے۔ بنیادی ضروریات زندگی، صحت و دیگر سہولیات کی عدم دستیابی اور نا خواندگی جیسی وباوؤں نے اس خطے کے غیور عوام کو بالخصوص اور دیگر پختون علاقوں کو بالعموم سرد جنگ میں امریکی نواز جہاد کا ایندھن بنایا۔ ڈیورنڈ لائن کا ذکر یہاں اس لیئے کیا گیا کیونکہ افغان جہاد کا اس سے گہرا تعلق رہا ہے۔

عام طور پر پڑھے لکھے لوگوں میں افغان جہاد کی بنیادی وجہ ایشیائی خطوں میں اشتراکیت کے تیزرفتار پھیلاؤ کے روک تھام کیلیئے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ایک انتہائی اقدام تھا جو بلا شبہ درست ہے۔ لیکن یہ جہاد شروع ہوا ہے ؁79 میں جبکہ اس جہاد کے روح رواں گلبدین، عبدالرسول سیاف، برھان الدین و دیگر کو تو 7 سال پہلے یعنی ؁72 میں افغانستان کے اس وقت کے حکمران ظاھر شاہ نے فساد اور آئی۔ایس۔آئی کے ساتھ رابطوں کے الزام میں افغانستان سے جلا وطن کیا تھا اور پاکستان نے پناہ دی تھی تو سوال یہ ہے کے اس وقت کونسا جہاد ہو رہا تھا؟ ؁60 کی دھائی میں اسی ڈیورنڈ لائن کے مدعے پر پاک افغان مزاکرات کے رد عمل میں ایوب خان کابینہ نے، جسکے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، افغانستان میں اس مشن کا آغاز کیا تھا جس کا اظہار افغانستان کے آخری انقلابی صدر ڈاکٹر نجیب نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے کابل میں اخباری نمائندگان سے گفتگو کر تے ہوئے کیا تھا اور کہا تھا کے ہمارے پاس اس کے مضبوط ثبوت موجود ہے جو ہم عنقریب متعلقہ فورم پر دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔

وہ کیا ثبوت تھے جس کا ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا تھا یہ تو انکی شہادت اور طالبان کی حکومت کے ساتھ شائد فنا ہی ہو گئے۔لیکن خیر ہم بات کررہے تھے فاٹا اور ملحقہ علاقوں کی جو اس تمام کارستانی کے براہ راست متاثرین ھیں۔ 9/11 کے بعد جب خود امریکہ نے افغانستان میں ملٹری آپریشن شروع کیا تو ہمارے ان علاقوں میں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاحوں نے جنم لیا تاکہ ہماری ملٹری اسٹیبلشمینٹ براہ راست دہشتگرد پیدا بھی کریں اور دہشتکردوں کے خلاف آپریشنز کی مد میں امریکہ اور دیگر عالمی اداروں سے فنڈز بھی لے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے۔ اور پھر جب پختون تحفظ تحریک کی صورت میں انکے انہی دوغلی پالیسیوں کے خلاف وہاں سے کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ غداراور ملک دشمن ٹہرا دی جاتی ہے۔

پشتون تحفظ تحریک کا کونسا مطالبہ ہے جو غداری، ملک دشمنی یا بیرونی ایجنڈے کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا دہشتگردوں کے خلاف غیر امتیازی آپریشن کا مطالبہ غداری ہے؟ کیا آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ پر کسی جوڈیشل کمیشن کی تقرری کا مطالبہ کرناغداری یا ملک دشمنی ہے؟ کیا احسان اللہ احسان کے حوالے سے اسٹیبلشمینٹ کے رویئے پر سوال اٹھانا غداری ہے؟ کیا دارالعلوم حقانیہ، جسکا دہشتگردی کے حوالے سے کردار کسی سے چھپا نہیں ھے، کو 30 کروڑ کے گرانٹ کے اعلان پر سوال اٹھانا ملک دشمنی ہے؟ کیا ملک میں امن کی بحالی کی بات کرنا غداری ہے؟ کیا لاپتہ افراد کے ساتھ آئین کے تحت برتاؤ کرنا غداری ہے؟ کیا ملٹری آپریشنز پر جوڈیشل کمیشن کی بات کرنا غداری ہے؟ اگر ہاں! تو پھر پشتون تحفظ تحریک ہی کیا اس ملک کا ہر زی شعور شہری غدار بھی ہے، ملک دشمن بھی ہے، بھارتی اور افغان انٹیلیجینس کا آلہءکار بھی ہے کیونکہ وہ اس مقدس گائے کی الوہیت میں شک کرتا ہےجس کی اس شہر نا پرسان پر خدائی ہے۔ ہاں اب وقت آگیا ہے کہ مقدس گائے کو یہ باور کرایا جائے کہ خدارا معصوم عوام کو مزید بیوقوف نہ بناو اور کچھ رحم کا مظاھرہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مرتبہ پھر تمہیں حمود الرحمان کمیشن بنانا پڑجائے اور پھر اسکی رپورٹ دنیا سے چھپاتے پھرو۔

فوج سے محبت اپنی جگہ درست ہے لیکن اسی کو ہی حب الوطنی قرار دینا کسی بھی صورت میں شعور کو زیب نہیں دیتا۔ شعور کا بنیادی تقاضا ہے کہ جو بھی ادارہ اپنے آئینی حدود سے تجاوز کرے اسکا کڑا محاسبہ ہو نہ کہ خصوصی رعایت دے کر ماوراء آئین و قانون اسے پوجا جائے۔ بدقسمتی سے یہاں کے سماجی شعور سے عاری نصاب تعلیم نے گل خانوں کی ایک ایسی فصل تیار کی ھے جو اپنی سیاسی و معاشی غلامی کے جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی حب الوطنی کے ثبوت پیش کر رہی ہے اور اپنے علاوہ دوسرے لوگوں کو ریاستی نصب شدہ ذھنیت کے تحت غداری کا چورن بیچ رہی ہے۔ ایسے طبقے سے جب آزادی کا معنی و مفہوم پوچھا جاتا ہے تو جوابا کہتے ھیں کہ ہم تو آزاد ھیں۔ جی ہاں آپ عقل و شعور سے آزاد ھیں لیکن عمرانیات کی رو سے جسے آزادی کہتے ھیں وہ آپکے قریب سے بھی نہیں گزری۔ ہاں یہ آزادی ہے کہ سرکاری سکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد وسائل نہ ہونے کی بابت ایک نوخیز جوان کو اپنے خاندان کا معاشی بوجھ اپنی ناتواں کندھوں پر اٹھا کر اپنی تعلیم کو ہمیشہ کیلیئے خیرآباد کہنا پڑتا ہے۔ اور حد تو تب ہوتی ہے جب یہ جوان اپنے گھر، گاؤں، شہر، ملک کو چھوڑ کر خلیجی ریاستوں کے جانب کمربستہ ہوتا ہے جو ثابت کردیتی ہے کہ یہ ریاست تو اپنے شہریوں کو ڈھنگ کی مزدوری بھی نہیں دے سکتی۔

گلہ ہمیں ان معصوم لوگوں سے نہیں کیوںکہ ان سے ہماری خود کی طبقاتی جڑت ہے۔ جو فرض ریاست نے جان بوج کر نہیں ادا کیا وہ ہمارا نا قابل تأجیل فریضہ ہے کہ انہیں زیور شعور سے آراستہ کریں۔ ہاں اس ریاستی ذھنیت کا یہ تاریخی جرم آنے والی نسلیں کسی بھی صورت معاف نہیں کرے گی۔

خیر پشتون تحفظ تحریک یا موجودہ حالات میں پکنے والی کوئی بھی تحریک ہو، نے کافی سارے مبہم سوالات کو عام عوام کے سامنے واضح کردیا۔ انکے اس تاریخی فریضے کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن آج کی ضرورت اس سے بھی بڑھ کر کچھ کرنے کی ہے۔آج یہ جتنی بھی تحریکیں جو سر اٹھا رہی ہے یہ دراصل انقلاب کے معروضی عنصر کا عملی اظہار ہے۔ جو موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی کے فقدان کی وجہ سے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتی۔ اور عام عوام ایک کے بعد دوسرے خضر راہ کی راہ تکتی رہتی ہے۔ پشتون تحفظ مومینٹ نے بھی اگر خود کو موضوعی عنصر میں نہیں دھارا تو اسکا بھی مستقبل اوروں سے مختلف نہیں ہوگا۔ اور جتنی رفتار اس نے گزشتہ کچھ عرصے میں حاصل کی ہے وہ سب بالفاظ دیگر ضائع ہوجائے گا۔