پشتون مطالبات، جوابی مہم، ’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی‘

عاطف توقیر

منظور پشتین اور پشتون تحفظ تحریک کی جانب سے پچھلے کچھ روز میں ایک کے بعد ایک اپنے مطالبات سے مزین مختلف پوسٹیں دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ افراد بار بار فقط یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی جانب سے کیا جانے والا کوئی مطالبہ نہ اس ملک کے خلاف ہے، نہ قانون کے خلاف ہے، نہ دستور کے خلاف ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملک توڑنے کی کوئی بات کی گئی ہے۔
مگر دوسری جانب میڈیا ہے، بھرپور ریاستی مہم ہے، وسائل ہیں، سوشل میڈیا ٹیمیں ہیں، زید حامد اوریا مقبول جان اور عامر لیاقت طرز کے لوگ بھی موجود ہیں، جن کا واحد کام یہ ہے کہ جھوٹ، من گھڑت قصوں، خواہ مہ خواہ کی الجھنوں اور مذہبی جملے بازی اور نعروں کے ذریعے سادہ سے معاملے کو الجھا کر رکھ دیا جائے۔ بات کچھ ہوتی ہے اور پیش کچھ کی کچھ کی جاتی ہے۔

کہا جاتا ہے چیک پوسٹوں پر مقامی افراد سے عزت سے پیش آیا جائے اور چیکنگ کے وقت انسانی اقدار کا خیال رکھا جائے، میڈیا پر بتایا جاتا ہے کہ وہ چیک پوسٹیں ختم کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پشتون تحریک اور خود منظور پشتین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کا ایسا کوئی مطالبہ نہیں مگر ریاست اور ادارے اپنی ضد پر اڑے ہیں کہ یہ تحریک چیک پوسٹیں ختم کرانا چاہتی ہے۔
پروپیگنڈا جس انداز سے ہو رہا ہے اور دکھائی دے رہا ہے، اس سے ایک بات واضح ہے کہ ریاستی اداروں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ عوام کی بات سننے کی کوئی ضرورت نہیں۔

پچھلی کئی دہائیوں سے اس قوم کے دل کے اندر تک ایک خوف بٹھا دیا گیا ہے، جس کے تحت اگر عوام نے اپنے حقوق مانگے، اگر قوم سے سر اٹھانے کا گناہ کیا، اگر کسی نوجوان نے ریاست سے عزت مانگی، اگر کسی بوڑھے نے اپنی لیے صحت مانگی، اگر کسی عورت نے اپنے لاپتا شوہر کا شکوہ کیا۔ اگر کسی بچے نہ اپنے لیے اسکول مانگا، یا کسی بھی شخص نے اپنے دستوری اور جائز حقوق کا مطالبہ کیا، تو نہ اس کا مطالبہ سنا جائے گا، نہ اس سے بات کی جائے گی، بلکہ قوم ہی کے پیسے استعمال کرتے ہوئے ایک پورا نظام ایسے ہر مطالبہ، ہر مانگ اور ہر آواز کو ’غدار‘ اور ’ایجنٹ‘ پکار کر پوری قوم کو خوف زدہ کر دے گا کہ شاید یہ ملک توڑنے کی کسی ’بین الاقوامی سازش‘ کا حصہ ہے۔

یہ سوال کون پوچھے کہ اگر منظور پشتین یا کوئی اور شخص ’غیرملکی آلہ کار‘ ہے اور آپ کو معلوم ہے، آپ کے پاس شواہد اور ثبوت ہیں، تو اسے تو اس وقت جیل میں ہونا چاہیے، یا مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے، یہ میڈیا پر لفافہ صحافیوں، زید حامد جیسے تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا پر اداروں کی ٹیموں کے ہاتھوں اس پروپیگنڈا مہم کی کیا ضرورت ہے؟ کوئی مجرم ہے، تو اسے گرفتار کر کے اسے عدالت کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

دوسری بات، اگر اس تحریک کا کوئی مطالبہ غیرقانونی ہے، تو آپ عوام کو آ کر بتا کیوں نہیں دیتے کہ فلاں مطالبہ پاکستانی دستور کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد سے متعلق ایک عدالتی کمشین بنایا جائے، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں، تو کم از کم ان نوجوانوں کہ یہ تو بتائیے کہ اس مطالبے کو مان لینے میں یہ حرج ہے۔

اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ لاپتا افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے، یعنی کوئی شخص جرم میں ملوث ہے، تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے اور نہیں ہے، تو چھوڑ دیا جائے۔ تو کم از کم ان بچوں کو بتا تو دیجیے کہ کسی بھی پاکستانی شہری کو بغیر کوئی مقدمہ قائم کیے، اٹھا لینا، اسے کسی بھی عدالت میں پیش نہ کرنا، اس کو کسی دفاع اور کسی اپیل کا حق نہ دینا، کیوں ضروری ہے اور اس سے ریاست کی بقا کیوں وابستہ ہے۔

یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ چیک پوسٹوں پر وہ اہلکار مقرر کیے جائیں، جو وہاں بسنے والے افراد سے عزت اور تکریم سے بات کریں۔ ان پاگل نوجوانوں کو بتا تو دیجیے کہ چیک پوسٹوں پر ان کی تذلیل ریاست کی سلامتی کے لیے کتنی ضروری ہے۔
یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن ختم ہو چکا ہے، تو وہاں سے زمینی سرنگیں صاف کی جائیں، انہیں کم از کم بتائے تو سہی کہ وہاں واپس بھیجے جانے والے افراد کے معذور ہونے، ان کے بچوں کے اپاہج ہونے، ان کے مال مویشی کے مر جانے میں ملک اور قوم کا فائدہ ہے۔ اس لیے ان کا یہ مطالبہ قوم کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
ان نوجوانوں سے بات کرنے کی بجائے، ان کی بات سننے کی بجائے، ان سے مکالمت کرنے کی بجائے، ان کے خلاف میڈیا مہم انتہائی خوف ناک عمل ہے اور اس سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس باقاعدہ مہم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ منظور پشتین اور ان کی تحریک میں شامل نوجوان غصے میں آئیں، جذباتی ہوں اور اس غصے اور جذبات میں کچھ بھی غیرذمہ دارنہ جملہ ادا کر دیں، تاکہ ان کی مہم کو اور طاقت دے دی جائے۔ اس کا جواب صرف اور صرف مزید پرامن ہونے، مزید ہوش مند ہونے، اپنے مطالبات کو مزید واضح انداز سے پیش کرنے اور اس پروپیگنڈا کو یک سر مسترد کرنے میں چھپا ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں اگلے چند روز میں آپ مزید ’کرن ناز‘، مزید ’زید حامد‘ اور مزید ’اوریا مقبول جان‘ جیسے افراد کی ویڈیوز، پیغامات، تصاویر اور جملے سنیں، گے اور وہ مزید سخت ہوتے چلے جائیں گے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ عوام میں یہ بات پھیلا دی جائے کہ یہ نوجوان اصل میں پاکستان توڑنے کی سازش کرنے والے ہیں اور ان کی مدد کوئی دوسرا ملک کر رہا ہے۔ اس دوران آپ ان کے جوابوں میں الجھ جائیں گے اور لوگ ابہام کا شکار ہو کر پوری زندگی سکھائے جانے والے خوف کے ہاتھوں مجبور ہو کر سوچ میں پڑ جائیں گے اور حقوق کی یہ تحریک کسی اور طرف نکل جائے گی۔ یاد رکھیے آپ حقوق کی بات کر رہے ہیں، مگر آپ کے ساتھ ایک پورا طبقہ اور ایک پوری ذہنیت ہے۔ آپ کی جنگ صرف اس مہم سے نہیں بلکہ پوری ایک سوچ سے ہے۔

اس سے قبل ہم نے مولوی خادم رضوی کا اسلام آباد والا دھرنا بھی دیکھا، جہاں کھلے عام ملک کے اداروں کو گالیاں دی جاتی رہیں، پولیس اور دیگر اداروں کے اہلکاروں پر حملے کیے گئے، عدالتی حکم کے باوجود اس علاقے کو خالی کرنے سے انکار کیا گیا، لوگوں کی زندگی اجیرن بنائی گئی، پرتشدد جملے اور نفرت انگیز تقاریر کی گئیں، اس کے جواب میں ان کے خلاف نہ کوئی مہم نظر آئی، نہ کسی ٹی وی پروگرام میں اس نفرت انگیزی کے خلاف کوئی باقاعدہ اور ٹھوس پروگرام ہوا، نہ ان پر ملک کو کم زور کرنے کی سازش کا الزام لگا، نہ کسی نے انہیں غیرملکی ایجنٹ کہا، نہ کوئی غدار کا فتویٰ جاری ہوا، بلکہ ان افراد کی جانب سے غیردستوری اور غیرقانونی مطالبات کی فہرست کو تسلیم کیا گیا اور فوج نے ضامن کا کردار ادا کیا اور ان مظاہرین میں پیسے تقسیم کیے گئے کہ وہ پرسکون انداز سے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ اس تمام عرصے میں سارا سارا دن اس دھرنے کی مسلسل نشریات جاری رہیں۔ نہ میڈیا پر کوئی روک نہ سوشل میڈیا پر کوئی ٹوک۔

تاہم پشتونوں کی اس تحریک میں دستوری مطالبات کے باوجود، پرامن جسلوں اور دھرنوں کے باوجود، نہایت بنیادی انسانی حقوق کی اپیلوں کے باوجود، چند نکاتی معاملے کے باوجود، کبھی انہیں دھمکیاں دی جاتی ہے، ان کے دھرنے اور جلسے کا میڈیا بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے، مقامی انٹرنیٹ سروس بند کر کے انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اپنی بات کہنے سے باز رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنے لفافہ بردار صحافیوں، مال بردار تجزیہ کاروں، بٹوا بردار اینکروں اور پیسہ بردار سوشل میڈیا ماہروں کے ذریعے ایک جھوٹی اور من گھڑت مہم کھڑی کر کے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جیسے ملک کے ایک حصے سے بارودی سرنگوں کے خاتمے، لاپتا افراد پر مقدمہ چلانے، ماورائے عدالت مارے گئے افراد کے قتل کی تفتیش کرنے یا چیک پوسٹوں پر عزت سے پیش آنے اور وہاں خواتین کی چیکنگ کے لیے خواتین اہلکاروں کی تعیناتی کا مطالبہ ملک دشمنی ہے اور یہ بنیادی حقوق مانگنے والے اصل میں غیرملکی ایما پر یہ مطالبات کر رہے ہیں۔

بات نہایت سادہ سی ہے، اصل میں معاملہ نہ یہ مطالبات ہیں نہ یہ تحریک، نہ منظور پشتین ہے نہ پشتون، معاملہ صرف یہ ہے کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی حق مانگنے کی، تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے سامنے کھڑے ہونے کی، تمہاری ہمت کیسے ہوئے فوج کے کردار پر تنقید کرنی کی، تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہم سے یہ پوچھنے کی ناحق مارے جانے والے افراد کے قتل کی تفتیش کیوں نہیں ہوئی، تم نے سوچا بھی کیسے کہ آرمی پبلک اسکول کے واقعے میں ڈیرھ سو بچوں اور اساتذہ کے قتل میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو گی، تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم سر اٹھا کر ہمارے سامنے کھڑے ہو۔ ہم فوج ہیں، ہم خفیہ ادارہ ہیں، ہم ریاست ہیں، ہمارے پاس طاقت ہے، اختیار ہے، قوت، ہتھیار ہیں، وسائل ہیں، قانون اور دستور کو ہم اپنے پیروں تلے روند سکتے ہیں، کسی بھی شخص کو قتل کر سکتے ہیں، کسی بھی شخص کو اٹھا سکتے ہیں، غائب کر سکتے ہیں، تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہم سے ہمارے کسی عمل پر کچھ بھی پوچھنے کی؟