چند شگوفے

وقاص احمد

ایکسٹرا کریکٹر

دو دیو قامت پہلوان بازار میں لڑ پڑے۔ دونوں تگڑے تھے، گھمسان کا رن پڑا۔ آدھا بازار تلپٹ ہوگیا۔ تمام لوگ گھبرا کر اپنی اپنی دکانوں کے شٹر نیچے کر کے چھپ گئے۔ صرف ایک 4 فٹا ننگ دھڑنگ چرسی تھا جو دونوں پہلوانوں کے درمیان اچھل اچھل کر ایک پہلوان کو تڑیاں لگا رہا تھا کہ “میں تینوں چھڈاں گا نہیں، ٹوٹے ٹوٹے کر دیاں گا”. چرسی کی ان حرکتوں کی وجہ سے پہلے بازار کے لوگ قہقہے لگا کر ہنسنے لگے اور آخر کار پہلوان بھی اپنی ہنسی پر قابو نا رکھ سکے، چرسی کو ایک جھانپڑ مار کر بیہوش کر دیا اور لڑائی ختم ہو گئی۔

(اس لطیفے کی موجودہ نواز/ اسٹیبلشمنٹ لڑائی میں عمران خان کے کردار سے مماثلت محض اتفاقیہ ہے)

جیت تو جیت ہوتی ہے

عمر خان نے “میرا بہترین دوست” کے موضوع پر ایک مضمون لکھا اور مضمون نویسی کے مقابلے میں بھجوا دیا۔ عمر چونکہ اپنی برادری کا واحد پڑھا لکھا بندہ تھا اس لیے برادری کو اس سے امیدیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ کئی مہینوں تک پورے شہر میں ڈھول پیٹا جاتا رہا کہ عمر خان نے مقابلے میں شرکت کی ہے۔ برادری کے چند بڑوں کو عمر خان کی قابلیت پر شک تھا اس لیے انہوں نے اپنی عزت قائم رکھنے کے لیے حفظ ماتقدم مقابلے کے منصفوں تک رسائی لی اور لالچ بمعہ ڈرانے دھمکانے کے بعد عمر خان کی جیت کو یقینی بنا دیا۔ پر ان سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ منصفوں کو یہ تک بتانا بھول گئے کہ مضمون کا عنوان کیا تھا۔ فیصلے کے روز کنفیوژ منصف نے تکا لگایا اور اعلان کر دیا کہ “میرا شہر” کے موضوع پر بہترین مضمون لکھنے پر عمر خان نے مقابلہ جیت لیا ہے۔ پوری برادری خوشی کے مارے پاگل ہوگئی، خوب ناچ گانا ہوا۔ عمر خان اور اس کے وہ دوست جو جانتے تھے کہ عمر خان کے مضمون کا موضوع کچھ اور تھا، اندر سے شرمندہ تو ہوئے لیکن پھر انہوں نے دانشمندانہ خاموشی اختیار کر لی کہ اگر برادری جیتنے پر اتنا خوش ہے تو پھر رنگ میں بھنگ کیوں ڈالنا۔ لیکن سنا ہے کہ عمر خان اور برادری کے بڑے منصفوں کے اس بے تکے فیصلے پر دل سے سخت ناراض ہیں۔

(اس لطیفے کی پانامہ مقدمے میں اقامہ فیصلہ آنے پر عمران خان و ہمنوا اور سرپرستان کی کیفیت سے مماثلت محض اتفاقیہ ہے)

ڈوری والا بندر

کھلونے والی دکان پر ایک بچے کو ڈوری سے چلنے والا بندر پسند آگیا۔ دکاندار نے پیکنگ کھولی تو ڈوری ٹوٹی ہوئی تھی۔ آخری پیس تھا اور دکاندار گاہک بھی جانے نہیں دینا چاہتا تھا سو اس نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بچے کو یہ باور کروا دیا کہ یہ بندر ڈوری سے نہیں چلتا بلکہ خودکار ہے۔ گھر آنے پر بچے کے والد نے جب دیکھا تو پتہ چلا کہ ڈوری کے بغیر تو یہ بندر چل ہی نہیں سکتا۔۔۔
آگے کا لطیفہ تو بھول گیا مگر ہاں یاد آیا کہ اجکل پاکستان میں ایسے کئی ڈوری والے بندر موجود ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خودکار ہیں اور ڈوری کی مدد سے نہیں چلتے۔ مگر اصل میں چیک کرو تو پتہ چلتا ہے کہ ڈوری کے بغیر یہ بندر بالکل بےکار ہے۔

سٹیٹ سیکرٹ

بھولو نے اپنی بیگم کے لیے انگوٹھی خریدی۔ یہ بیگم کی سالگرہ کا سرپرائز گفٹ تھا لیکن بھولو کے پیٹ میں بات بھی نہیں رہتی تھی۔ اس نے اپنے دوست کو یہ راز بتا دیا اور وعدہ لیا کہ وہ کسی اور کو نہیں بتائے گا۔ دوست گھر پہنچا تو باتوں باتوں میں اس سے منہ سے یہ بات پھسل گئی، دوست کی بیگم نے اصرار کیا کہ پوری بات بتاؤ تو دوست نے اپنی بیگم کو بھی یہ راز اسی شرط پر بتا دیا کہ وہ کسی اور کو نہیں بتائے گی۔ اگلے دن اس عورت نے اپنی سہیلی کو اور اس سہیلی نے اپنی سہیلی کو اور پھر اس سہیلی نے اپنی تمام سہیلیوں کو یہ راز اسی شرط پر بتا دیا کہ وہ کسی اور کو نہیں بتائیں گے۔ 4 دن میں پورے شہر کو معلوم ہوگیا بھولو نے اپنی بیگم کے لیے “سرپرائز” گفٹ لیا ہے۔ حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ بھولو سگریٹ لینے پان کے کھوکھے پر گیا تو اس کو پان والے نے آنکھ مار کر جتایا کہ آپ کے سرپرائز گفٹ کا راز اس کے پاس امانت ہے اور بیگم شاپنگ کرنے گئی تو راہ چلتی فقیرنی نے اس کے کان میں سرگوشی کہ تمہارے میاں نے تمہارے لیے انگوٹھی خریدی ہے۔ سالگرہ والے دن میاں اور بیوی دونوں کو پتہ تھا کہ نا ہی کچھ راز رہا ہے اور نا سرپرائز مگر عزت سادات بچانے کو دونوں نے خوب خوب ایکٹنگ کی۔
اجکل پاکستان میں بھی ایسے ہی “سٹیٹ سیکرٹ” نامی “راز” افشا ہونے کے بین ڈالے جاتے ہیں جو کہ امریکہ میں کسی سگریٹ کے کھوکھے والے کو اور جاپان میں کسی فقیر کو بھی معلوم ہیں۔ باقی ایکٹنگ جنی مرضی کری جاؤ۔

اندھے اور ہاتھی

اندھے اور ہاتھی کہ کہانی سب نے سنی ہے، سبھی کو پتہ ہے کہ جس اندھے نے ہاتھی کے جسم کو جہاں سے چھوا اس نے ہاتھی کے بارے وہی رائے قائم کر لی۔ لب لباب یہ ہے آپ کو جتنی معلومات مل جائیں آپ اسی پر رائے قائم کرتے ہیں۔۔۔
بعینہٖ آج کل کے مادر پدر آزاد میڈیا کے دور میں اندھوں کو جتنی خبر دی جاتی ہے وہ اس کی تفصیل، ترتیب، تشریح، تردید، سیاق اور سباق میں جائے بنا فٹ سے اپنے فیس بک کے اگلدان میں اپنی ادھوری معلومات اگل دیتے ہیں۔ آخر میں خجالت تو پھر مقدر بنتی ہی ہے لیکن اگر آپ ڈھیٹ بن جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت بشمول امریکہ کے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔ آہو۔