ڈاکٹر عاصم حسین کی دوبارہ تقرری یا پاکستان پیپلز پارٹی کا قحط الرجال

مہنازاختر

26 جنوری 2018 کو گورنمنٹ آف سندھ سروسز،جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کورڈینیشن ڈپارٹمنٹ  کی جانب سے جاری ہونے والے علامیے کے مطابق سابق وفاقی وزیر/ مشیربرائے پٹرولیم و قدرتی ذخائر اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے سابق چئیرمین ڈاکٹر عاصم حسین کو دوبارہ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کا چئیرمین مقرر کردیا گیا ہے ۔ اختیارات و مراعات اور دیگر معاملات میں یہ عہدہ صوبائی وزیر کے مساوی ہے۔ تمغہ ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے حامل ڈاکٹر صاحب ضیاء الدین ہاسپیٹلز اینڈ گروپ کے چئیرمین ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔

کئی ممالک میں ذاتی کاروبار اور جائیدادوں کے مالک ڈاکٹر عاصم پر نیب کی جانب سے کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانیوں کا الزام ہے، مزید برآں اگست 2015 میں پیرا ملٹری فورس نے ڈاکٹر عاصم کو دہشت گردوں کی مالی اور طبّی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ڈاکٹر عاصم پرگیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے، گیس کی مصنوعی قلّت اور بحران پیدا کرنے کا الزام بھی ہے ۔ موصوف کینیڈین شہر یت بھی رکھتے ہیں اور اپنی رہائی کے لیے انہوں نے کینیڈا سے مدد کی درخواست بھی کی تھی۔  فی الحال تو یہ الزامات ہی ہیں اور انہیں ثابت کرنے کی ذمہ داری ان اداروں پر ہے، جن کی جانب سے یہ الزامات لگائے گئے ہیں ورنہ دوسری صورت میں خود ان اداروں کی ساکھ اور عوام کا ان پر اعتبار داؤ پر لگا ہے  مگر یہاں مجھے پانامہ پیپر کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا  وہ مشہور زمانہ جملہ یاد آرہا ہے، ’’ہر بڑے خزانے کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔‘‘

سندھ سے تعلق رکھنے والی اساتذہ تنظیموں نے ڈاکٹر عاصم پر ماضی میں بحیثیت  چیرمین ایجوکیشن کمیشن سندھ  اپنے فرائض سے سنگین غفلت برتنے کا الزام لگایا ہے اور ہڑتال و احتجاج کی کال دی ہے۔ پورے معاملے میں سندھ  کے وزیر تعلیم کا کردار کہیں دکھائی نہیں دے رہا ،آیا سندھ  میں کوئی وزیر تعلیم موجود ہے بھی یا نہیں، یا انہون نے سلیمانی ٹوپی پہن  رکھی ہے کیونکہ سندھ  حکومت کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود سندھ  کابینہ کی فہرست میں بحیثیت صوبائی وزیر تعلیم  جناب جام مہتاب دھر کا نام اساتذہ اور خصوصاً طالبعلموں کا منہ چڑھا رہا ہے۔

سندھ  میں تعلیم کی زبوں حالی کا حال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور اعلیٰ تعلیم کے معیار کی ناگفتہ بہ حالت کا ثبوت ہماری پبلک یونیورسٹیز کی خستہ حالی ہے۔ پاکستان اور سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کی جامعہ کراچی کے درودیوار جامعہ میں ہونے والی مالی اور علمی بدعنوانیوں کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔  جامعہ کراچی  چوبیس ہزار طلبہ وطالبات کی علمی امنگوں کا براہ راست مرکز ہے۔ اس کے علاوہ یہ جامعہ  کراچی کے  ڈیڑھ لاکھ طلبہ وطالبات کے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ بھی کرتی ہے – جامعہ کراچی کے طلبہ وطالبات اساتذہ اور انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں ۔ سائنسی علوم اور اکنامکس کے شعبہ جات طالبعلموں سے کھچا کھچ بھرے ہیں مگر سائنسی سوچ عنقا ہے۔  سماجی علوم اور اسلامک اسٹڈیز کے شعبہ جات مفکّرانہ صلاحیتوں کے حامل اساتذہ اور طالبعلموں سے خالی ہیں، منطقی اور تنقیدی افکار پر پابندی ہے ۔ چند ایک شعبہ جات کے علاوہ باقی تمام شعبوں میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عشروں پرانا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور نئی سوچ رکھنے والے طالبعلموں کی زبردست حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ گویا یونیورسٹیز نا ہوئیں بسکٹ کی فیکٹریاں ہوگئیں جہاں سے ایک شکل، ایک جسامت اور ایک ذائقے کی بسکٹ نکالے جاتے ہیں  اور بالکل یہی کام ہماری جامعات بھی کررہی ہیں، غلامانہ ذہنیت کے تابعدار اور وفادار ملازمین پیدا کرکے۔  اسی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی ضرورت مند طالبعلموں کے لیے غیرفعال ہے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ انگریزی زبان میں ہےحالانکہ پاکستان کی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان اردو ہے۔ اس ویب سائٹ میں سرکار کے تعلیم کے میدان میں کارناموں اور ملکی اور غیر ملکی اسکالر شپس کے اشتہارات کی بھرمار ہے۔

وزارت تعلیم اور وزیر تعلیم سندھ کے طالبعلموں کے مسائل سے ناواقف ہیں۔ سندھ کے طالبعلموں کی اکثریت پسماندہ علاقوں اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے ایسے  طلبہ وطالبات سرکاری یا غیر معیاری نجی اسکولوں سے پڑھ کر کالج پہنچتے ہیں یا میٹرک کے بعد پرائیوٹ امتحانات دے کر گریجویشن کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اور بڑی مشکل سے یونیورسٹیز پہنچ کر وہاں کے ماحول میں اپنی جگہ بناتے ہیں ۔ طالبعلموں کے لیے سب سے بڑی مشکل  کتب اور دیگر درسی مواد کا حصول ہے ۔ پاکستان میں کتابیں مہنگائی کے سبب غریب طالبعلموں کی پہنچ سے باہر ہیں اور پاکستان کی وزارت تعلیم کو کبھی  ورچوئل/آن لائن لائبریری بنانے کا خیال نہیں آیا جہاں انگریزی اور اردو زبان میں کتابیں موجود ہوں۔

غیرملکی اسکالر شپس کے ساتھ انگریزی زبان سے واقفیت کی شرط طالبعلموں کو مشکل میں ڈال دیتی ہے اور انگلش لینگویجز کے کورسس اور امتحانات کے سلسلے میں وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن طالبعلموں کی کوئی مدد نہیں کرتے،  کسی بھی اسکیم کا اعلان ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے نہیں کیا جاتا۔ طالبعلموں کو کسی قسم کا تعلیمی قرضہ  فراہم نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی دوران تعلیم روزگار کے حصول میں مدد کی جاتی ہے۔ طلبہ وطالبات کی رہنمائی اور مدد کے لیے وزارت تعلیم کی طرف سے کوئی ہیلپ لائن سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور  رابطے کے لیے دیے گئے برقی رابطوں سے بھی سوالوں کے جوابات نہیں دیے جاتے۔

سندھ میں تعلیم کی مخدوش صورتحال کی ذمہ داری برسوں سے اقتدار میں رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ حقیقت تو مسلّمہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وزارت تعلیم کبھی کسی آئیڈیل شخصیت کے حوالے نہیں کی جو طالبعلموں کے لیے مشعل راہ ہو اور ان کے مسائل کے حل اور سندھ میں تعلیم کے فروغ میں دلچسپی رکھتی ہو اور سونے پر سہاگہ ڈاکٹر عاصم کی بحیثیت  چئیرمین دوبارہ تقرری ایک عظیم لمحہ فکریہ ہے۔

’’ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے، جہاں گریجویٹ غریب اور مجرم امیر ہو آپ نئی نسل کو کیسے قائل کریں گے کہ تعلیم کامیابی کی کنجی ہے؟‘‘ (رابرٹ موگابے)