ڈرتے ہیں بندوقوں والے
انیس فاروقی
جب سے کائنات بنی ہے ، مسلمان بھی کسی نہ کسی شکل میں پیدا ہوتے رہے ہیں ، ہر دور میں انہیں پیدا ہونا آگیا بس یہ نہیں سمجھے کہ پیدا ہونے اور بیدار ہونے میں کیا فرق ہے ۔ جدید دور کی بےبی بومر نسل اور ملینیل کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر میں انتہائی عمدہ اسکول ، کالجز اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور معاشرے میں اعلی مقام حاصل کیا لیکن ہر جمعہ ایک واجبی سی تعلیم والے ملُا کے آگے جا کر دو گھنٹے کا خطاب سن کر سجدے کر کے دماغی آلودگی کے ساتھ لوٹ آئے ۔
کبھی فکر ہی نہ کی کہ جس طرح دنیاوی امتحان کے لئے اساتذہ ، ماہرین، پروفیشنل اور لائیبریریوں میں جا کر تحقیق کی اسی طرح ذرا اپنے اسلام کو بھی پہچان لینے کی جستجو پیدا کرتے۔
ہم تو بس سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہی مصروف رہے ، تاہم اس دوران ہماری افواج سائنس اور ٹینکالوجی یعنی اسلحہ بارود اور ٹینکوں کی فکر میں ہماری تعلیم اور صحت کا پیسہ لگا لگا کر اپنا پیشہ بچاتے رہے ۔ بقول ۔۔ سامنے کچھ ، اندر کچھ اور ہے ۔۔۔ یہی تو مسئلہ قابلِ غور ہے ۔
ویسے اتنے سارے ٹینکوں اور ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے تاریخ گواہ ہے کہ شاعر یہ کہنے پر ہی مجبور ہوئے کہ “ڈرتے ہیں بندوقوں والے” کبھی ایک نہتی لڑکی سے اور آجکل ایک نہتے لڑکے سے ۔
منظور پاشتین نہتا بھی ہے اور مظلوم بھی ، ریاست طاقتور بھی ہے بے رحم بھی ، اللہ منظور کو محفوظ رکھے ، ورنہ مُلا برگیڈ تو اسے راستہ سے جلد ہٹانے میں دیر نہیں کرے گی ۔ زباں دراز روایت سے ہٹ کے چلتا ہے ۔ یعنی ظلم سے ڈٹ کے لڑتا ہے ، گویا غداری کے تمام اجزاء اس میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ تو دوسرا الطاف حسین بن گیا ہے ، اس کا بھی کوئ “انتظام” کرنا ہوگا۔
حقیقت ہے فقط اتنی ، جو یہ غدار ہیں سارے ، خطا اتنی سی ہے ان کی ، وطن سے پیار کرتے ہیں ، مگر جو بات حق کی ہے ، وہی اظہار کرتے ہیں ، یہی تو جرم ہے ان کا ، روایت سے جو ہٹتے ہیں ، اجازت ہی کہاں اس کی ، وطن میں بات کرنے کی ۔یہ سب غدار ہیں سالے ۔
بغاوت اور غداری کوئی ایک دو دن کی پیداوار نہیں ہوتیں ۔ یہ برسوں کی محرومیوں اور جبر کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں ۔ اور جب پانی سر سے اوپر گزرنے لگتا ہے تو ساب جی کہتے ہیں چلو اب طالبان سے مزاکرات کرتے ہیں ، احسان اللہ پر احسان کرتے ہیں اور حافظ سعید کو گلے لگاتے ہیں ، مگر اس وقت تک واقعی دیر ہو چکی ہوتی ہے ، ریاست کا ہمیشہ وہی منیر نیازی والا پچھتاوا رہا ہے کہ ، ضروری بات کہنی ہو ، کوئی وعدہ نبھانا ہو ، اُسے واپس بلانا ہو ، ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں۔
ہماری عسکری سوچ کو ۱۹۷۱ سے ایک ایسا نفسیاتی دھچکہ لگا ہے کہ وہ اس سے باہر ہی نہیں نکل پائی ، ہندوستان کی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے رمنا ریس کورس گارڈن کی تصویر آج بھی راتوں کو ایک ڈراونے خواب کی طرح ان کا پیچھا کر رہی ہے ، قوم کے ابوجان نیازی کو تو شاید یہ بھول گئے ہوں لیکن لیفٹنٹ جنرل جگجیت سنگھ ارورا کی شکل آج بھی ذہنوں پر نقش ہے ۔ اس پر غضب یہ کہ ڈھاکہ میوزیم میں وہ ترانے ہزار پتلونیں بھی غدار بنگالیوں نے آج تک لٹکا رکھی ہیں جو نہ جانے انہوں نے کیوں اتروا لی تھیں۔
منظور پاشتین کی پشتون تحفظ موومنٹ نے اسی فوج کو آج پھر للکارا ہے جس کا ۱۹۷۱ کے بعد سے بیانیہ مستقل “پتلون ” تحفظ موومنٹ کے گرد گھوم رہا ہے ۔ کہیں یہ پتلونوں والا سانحہ پھر دوبارہ کوئ قوم نہ کروادے ۔
سترہ دسمبر کو بنگالی وکٹری ڈے مناتے ہیں جبکہ بھارتی فوج کے کیلینڈر میں یہ وجے دیواس کے نام سے لکھا ہوا ہے ، البتہ ہماری تاریخ اور کیلینڈر پر یہ ایک بدنما داغ کی شکل میں موجود ہے ۔ ہمارے سپہ سالار ہندوستان سے نفرت اور جنگی جنون کی کمائی سے امیر و کبیربن گئے ہیں ، کشمیر کو بیچ میں اڑا کے رکھا ہوا ہے ، جب کبھی امن کی امید جاگتی ہے ، پٹھان کوٹ ہو جاتا ہے ، یا ممبئی تاج محل دہشت گردی۔
ویسے دہشت گردی پہ یاد آیا ، اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر عمران کے مشہور نعرے ، گو نواز گو کی مقبولیت دن بدن کم ہوتے ہوتے ، ایک اور نعرے نے جنم لے لیا ہے ، یہ جو دہشت گردی ہے ، اس کے پیچھے وردی ہے ۔ اب ایسے نعرے لگاو گے تو منظورِ نظر تو نہیں رہو گے نا ۔ کبھی سنا ہے خادم رضوری ، یا زید حامد کے منہ سے ایسے کفر کے کلمات ؟
دہشت گردی تو انیل کپور اور سنجے دت کرتے آئے ہیں بالی ووڈ کی فلموں میں، اور ہمارے مردِ مجاہد حافظ سعید اور زید حامد اکیلے ہی کافی ہیں ہندوستان جیسے دہشت گرد ملک کو ختم کرنے کے لئے، کم از کم وہ منہ کے فائر بہت اچھے کرتے ہیں البتہ انکا نشانہ خطا ہو جاتا ہے ۔ اب ہر کوئی تو نشانے کا اتنا پکا نہیں ہوتا نا کہ اڑتی ہوئی شے کو بھی تاک کر نشانا بنا ڈالے ۔ ” اور اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ”
اسامہ بن لادن ، حافظ سعید، ملا عمر، مسعود اظہر، داود ابراہیم اور متعدد دہشت گرد ہماری سرزمین کو استعمال کرکے دنیا میں دہشت پھیلاتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں ، ہم ان پر ظاہری پابندیاں لگا کر دنیا کو بے وقوف سمجھ کر انہیں پالتے رہتے ہیں، کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو نفرت کا پرچار کیسے ہوگا۔
نفرت کے اسی بیانیے کے باعث پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج ہندوستان سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ ان کا بس نہیں چلتا کہ ایٹم بم چلا دیں ، لیکن دوسری طرف جب دل چاہتا ہے ایٹم بم رکھنے والی قوم کے سپہ سالار آئٹم سانگ چلا دیتے ہیں “بچنا اے حسینوں۔۔ لو میں آگیا ” ۔ پھر اس پر جھوم جھوم کر کوٹ پتلون پہن کرمحو رقص مدہوش ہو جاتے ہیں ۔ حب الوطنی اور غداری کے درمیان بھی شاید ایسی کوئی ایسا نظریہ ہےجس کا عام عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ویسے بھی اب تک تو پوری دنیا کو پتہ چل چکا ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا تھا ۔ اس کے بعدسے اب پاکستان میں بھی صرف دو ہی قومیں رہتی ہیں ، ایک فوجی اور دوسری بلڈی سویلین۔ ان بلڈی سویلینزکو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی نظم ٹی وی پر آکر گنگنائیں۔ علامہ اقبال بھی شاید کوئی میجر کرنل رہے ہوں گے کہ کوئی انہیں غدار نہیں کہتا، ورنہ کسی کی مجال ہے کہ وہ یہ کہے کہ “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” ۔ غدار کہیں کے۔
ویسے ہم جب بھی تاریخ کے ان اوراق کو پلٹتے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والے ان الباکستانیوں کو کیا جواب دیں جو پاک فوج کے ہر جبر کو یہ کہہ کر جائز فرما دیتے ہیں کہ جب تک ہماری بہادرپاک فوج ہے اس وقت تک پاکستان قائم و دائم ہے اور اسے کوئی نہیں توڑ سکتا ۔تو پھر ۱۹۷۱ میں کیا اخروٹ توڑا تھا یا کوئی ۲۰/۲۰ ورلڈ ریکارڈ؟
شاید وہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ پہلی بال تو ویسے بھی ٹرائی بال ہوتی ہے ، اب کی مار کے دیکھ ، اسی نفسیاتی مرض کے باعث اب انہیں ہر سچا پاکستانی غدار دکھائی دینے لگتا ہے ، اور اس غدار کو مارنے کے لئے انہوں نے کچھ ایسے “خادم” پالے ہوئے ہیں جن پر مُلا کے اسلام کا سایہ ہے ، اور وہ اللہ کے دین کے نام اور اس کےترمیم شدہ فلسفے کو کھل کر اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔
اللہ معاف کرے ، پاکستانی ریاست آج بھی اسی اللہ اور مُلا کے اسلام کے درمیان پھنسی ایک عجیب کشمشش سے گزر رہی ہے ۔ یا اللہ قیامت کیوں نہیں آتی؟