کرونا وائرس اور طلباء کے مسائل

 اظہررشید

طلباء نے سیاسی انقلابات بلکہ دیگر تمام سماجی تبدیلیوں کے عمل میں ہرعہد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ طلباء/نوجوان کسی بھی سماج کی سب سے حساس پرت ہوتے ہیں۔ جو کسی بھی ممکنہ تبدیلی کے زیر اثر سب سے پہلے متحرک ہوتے ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اب جب کہ دنیا میں انسان کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات کے بعد حکمرانوں کے دوہرے جبر کا شکار ہو رہا ہے، ایک طرف مزدوروں کو فیکٹریوں سے نکالا جا رہا ہے، روزگار کے مواقع تباہ ہو  رہے ہیں، بھوک کے بادل ہر عام انسان کے سر پر منڈلانے لگے ہیں اور حکمرانوں کے سروں پر خوف کا بھوت سوار ہے، ایسے میں معاشرے میں تبدیلی کے امکانات عمومی ہوتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے اقتدار اور سرمایہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان میں ان حالات نے طلباء کو بھی مشکلات اور پریشانیوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔

پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں طلباء کے مسائل سنگین نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔ اسکولز اور کالجز کے حد تک تو حکومت /وزارت تعلیم نے طلباء کو اگلی جماعتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ تاہم یونیورسٹییز کے طلباء کے لیئے اختیارات کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حوالے کر دیا گیا اور آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا گیا۔ اب پاکستان کی صورتحال یہ ہے کے ملک کے ستر فیصد علاقے میں انٹرنیٹ سروس ہی اس قابل نہیں ہے کہ جہاں آن لائن لیکچرز کو سنا جا سکے۔ اس جدید نظام تعلیم کے لیئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہر طالب علم کے پاس جدید موبائل فون/ لیپ ٹاپ کی سہولت موجود ہو اور ساتھ ہی اساتذہ کا بھی آن لائن تعلیم و تدریس میں ماہر ہونا بھی ضروری ہے۔ ان تمام مسائل کی موجودگی میں آن لائن کلاسز  بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اب جب کہ حالات اس حد تک سنگین نوعیت اختیار کر چکے ہیں کہ عوام کو راشن تک کے بندوبست میں مشکلات درپیش ہیں۔ وبا اور بیروزگاری سے عوام پریشان ہے تو ایسے میں والدین کے لیئے 50 ہزار تک کی اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ تعلیمی اداروں نے طلباء سے فیس وصول کرنے کی غرض سے آن لائن کلاسز کا اجراء کرتے ہوئے فیسیں ادا کرنے کا حکم نامہ جاری کر رکھا ہے۔

چوں کہ پاکستان میں طلباء کی یونینز پر طویل عرصے سے پابندی عائد ہے۔ جس کی وجہ سے طلباء کی ترجمانی بھی ریاستی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ جہاں بھی طلباء نے اپنے مسائل ادارے تک پہنچائے تو اداروں نے یہی جواب دیا کہ پالیسیاں ہائر ایجوکیشن کمیشن بناتا ہے۔ لہذا ادارہ اس پر جوابدہ نہیں ہے۔ جس نے عمل کرنا ہے تو کرے ورنہ مستقبل کے ذمہ دار طلباء خود ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں کہ جب طلباء گھروں میں محصور ہیں۔ ملکی ترقی کی صورتحال ایسی ہے کہ انٹرنیٹ تو دور کی بات بعض علاقوں میں موبائل فون سروس بھی موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں طلباء کے لیئے آن لائن کلاسز کے حکم نامہ جاری کر دینا ریاست اور اس کی اداروں کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ طلباء کی بڑی تعداد اس ساری صورتحال سے بے خبر ہے کیوں کہ ان کے پاس رابطے کے ذرائع موجود نہیں ہیں۔ وہ طلباء جن کے پاس قدرے بہتر سہولیات موجود ہیں وہ ایسے ماحول میں آن لائن تعلیم سے مطمئن نہیں ہیں۔ طلباء نے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی وساطت سے اپنے مسائل سے حکام کو آگاہ کیا ہے۔ مگر ان کے مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے حکام نے منفی رویے  کا اظہار کیا۔ جس سے طلباء کو احتجاج کے لیئے مجبور کر دیا گیا ہے۔ طلباء نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت کو 14 جون تک کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ اگر طلباء کے مطالبات کو منظور نہیں کیا جاتا تو ملک گیر احتجاج کیئے جائیں گے۔ یقینی طور پر ساٹھ کی دہائی میں طلباء تحریک جس نے ایوب خان کے تخت کو الٹا تھا ایک مرتبہ پھر سے ابھرے گی اور حاکم وقت کی نیندیں حرام ہو جائیں گی۔