کرونا وباء ، میڈیکل ایمرجنسی اور لاک ڈاؤن

 عابد حسین

کرونا وائرس کی وباء نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔  

کرونا کے حوالے سے سائنسدانوں، میڈیکل سائنسز اور شعبہ صحت سے وابستہ افراد نے تمام  تر معلومات بروقت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کرونا کیا ہے، کیسے پھیلتا ہے، کن وجوہات کی بناء پر پھیلتا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے یہ باتیں اس وباء کے پھوٹنے سے اب تک تقریباً ہر شخص تک پہنچ چکی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک

کرونا وباء 169 ممالک میں پھیل چکا ہے اور عالمی سطح پر اب تک تقریباً 8,878 افراد اس وباء کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ چین میں اب تک 3,248 ، اٹلی میں 3,405 ، اسپین میں 831 ، ایران میں 1,100 ، امریکہ میں 140 جبکہ پاکستان میں 4 افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔

پاکستان میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 454  ہے۔ جس میں صرف صوبہ سندھ میں متاثرہ افراد کی تعداد 245  ہے۔ جبکہ خیبرپختونخواہ میں کرونا سے اب تک تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

پورے ملک میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ ملک کے تمام صوبوں میں قرنطینہ سینٹرز قائم کیئے گئے ہیں اور تمام صوبوں کے تمام اضلاع  میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈزیز سرویلنس سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ ہر ضلع میں قرنطینہ سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ تمام سرکاری و نجی دفاتر اور کاروباری مراکز بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امتحانات ملتوی اور تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اب آتے ہیں لاک ڈاؤن کی جانب!  

لاک ڈاؤن

لاک ڈاؤن کیا ہے اور اس دوران کس قسم کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے؟

لاک ڈاؤن ایک ہنگامی اقدام ہوتا ہے جس میں خطرے کی حالت میں لوگوں کو ایک محدود علاقے یا بلڈنگ کو چھوڑنے سے عارضی طور پر منع کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن کے نفاذ کا مقصد لوگوں کا تحفظ ہوتا ہے اور کرونا کی آفت سے قبل فائرنگ یا بم حملے کا خطرہ عام طور پر اس کی وجہ بنتے تھے۔

خیبرپختونخوا میں ضلع بونیر، ہنگو اور مردان کو لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ ان تینوں اضلاع میں کرونا سے ایک ایک موت واقع ہوئی ہے  جس کے بعد لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ اس وباء پر قابوں پایا جا سکے لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور وہ انہیں نبھانی بھی پڑے گی۔ چین کی ہی مثال لیجیے کہ کس طرح چین کی عوام نے حکومت کا ساتھ دیا، اس کے ہر فیصلے پر من وعن عمل کیا اور خود کو ڈھائی مہینے تک گھروں میں محصور رکھا۔ ان کی ان کوششوں کی وجہ سے آج تیسرا روز ہے کہ چین میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔ جبکہ باقی دنیا میں کرونا وباء اور بھی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ لاک ڈاؤن سے ہی اب اس وباء پر قابوں پایا جاسکتا ہے۔ جس طرح چین نے قابو پایا۔ کئی روز تک لوگ گھروں میں محصور رہے اور اگر کوئی متاثر ہوجائے تو اسکی شناخت کے بعد اس کو صحت مند افراد سے الگ کردیا گیا۔ اس ممکنہ اقدام سے مریض کی صحت دوبارہ بحال ہوسکتی ہے۔ جبکہ بقیہ افراد کو انفکشن سے متاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر شہریوں نے اس جیسے حالات کا سامنا کیا ہے اور نہ ہی ان کی پہلے کسی قسم کی تربیت کی گئی ہے۔ باء جس حالت میں بھی موجود ہے اور جہاں بھی ہے لیکن احتیاطی اور حفاظتی اقدامات و تدابیر کو اپناتے ہوئے ہی اس کو شکست دیا جا سکتا ہے۔ جب سے یہ وباء آئی ہے حفاظتی تدابیر پر زور دیا جارہا ہے لیکن کوئی بھی انکو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ بار بار ہاھ دھونے کا کہا جارہا ہے، ماسک پہننے کا کہا جارہا ہے،

،ہجوم میں جانے سے اجتناب برتنے کی ہدایت جاری کی گئی ہےاور غیر ضروری سفر سے منع کیا گی ہے۔ ساری دنیا بند ہے۔ مذہبی قامات و اجتماعات بند کردیئے گئے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے  کہ ہم اب بھی کہہ رہے ہیں کہ موت اپنے وقت پر آنی ہے اور یہ ہمارے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ یہ سب سن کے ایک طرف حیرانی ہوتی ہے تو دوسری طرف دکھ بھی ہوتا ہے کہ ہم سائنس سے نابلد لوگ صرف توہم پرستی پر ہی یقین رکھتے ہیں اور تو اور کل پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے ایک متاثرہ مریض بھاگ گیا جسے بعدازاں  پولیس نے گرفتار کر کے پھر ہسپتال منتقل کردیا۔ 

کرونا وائرس کی وباء سے بچاؤ کے لیے حکومت اپنی حد تک جتنے بھی اقدامات کررہی ہے اگرچہ ناکافی ہیں لیکن اگر عوام الناس بھی احتیاطی تدابیر اپنائے تو چین کی طرح ہم بھی بہت جلد اس پر قابو پاسکتے ہیں۔