کلدیپ نیّر کو آئینہ بنالیجیے

مہناز اختر

14 اگست سن 1923 کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ممتاز صحافی کلدیپ نیّر کو آئینہ بنا لیجیے . اس آئینے میں برصغیر پاک و ہند کی سیاسی اور سماجی اتھل پتھل سے بھرپور 95 سالہ تاریخ کا بھرپورمشاہدہ کیا جاسکتا ہے. ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچے,کیا کھویا اور کیا پایا, یہ آئینہ سب کچھ دکھا سکتا ہے. 23 اگست 2018 کو وفات پانے والے صحافی کلدیپ نیّر کی وفات پر ہندوستان پاکستان میں بہت کچھ لکھا گیا ہے. ان کی وفات نے اس خطّے میں بسنے والی عوام ,حکمرانوں, دانشوروں کو یہ یاد دلایا ہے کہ برصغیرپاک وہند کی کچھ شخصیات ایسی ہیں جو ہمارا مشترکہ ورثہ ہیں. کلدیپ خطے کی سیاست میں امن کے داعی اور امید کی شمع جلائے رکھنے والوں میں سے ایک تھے۔

یہ اتفاق ہی تھا کہ 15 اگست کی شام کو میں نے دہلی سے شائع ہونیوالے اردو اخبار “سہارا” کا برقی ایڈیشن پڑھنا شروع کیا تو ادارتی صفحہ پر مجھے کلدیپ کے کالم بین السطور میں انکا آرٹیکل دکھائی دیا جسکا عنوان تھا “اکہتر سال بعد بھی تعلقات میں جمود” یہی آرٹیکل ہفتہ جشن آزادی کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے کئی اخبارات میں ہندی اور انگریزی زبانوں میں بھی شائع ہوچکا تھا. اگست کا مہینہ انکے جنم کا مہینہ ہونے کے باوجود بھی انکی زندگی میں تقسیم کی سوگواریت کے ساتھ آتا ہوگا. اسکا اظہار انہوں نے مذکورہ آرٹیکل میں بھی کیا تھا جو انکا آخری آرٹیکل ثابت ہوا۔

اس آرٹیکل میں کلدیپ نیّر لکھتے ہیں۔
” 12 اگست 1947 کے دن پیشہ سے ڈاکٹر میرے والد نے ہم تین بھائیوں کو بلا کر پوچھا کہ ہمارا کیا پروگرام ہے. میں نے انہیں بتایا کہ میں پاکستان میں رکنا چاہتا ہوں اسی طرح جیسے مسلمان ہندوستان میں , میرے بڑے بھائی جو اس وقت امرتسر میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کررہے تھے انکا جواب یہ تھا کہ ہمیں زبردستی یہاں سے نکال دیا جائے گا. گھر میں تالہ لگاتے ہوئے میری ماں نے کہا تھا مجھے عجیب سا احساس ہورہا ہے کہ ہم لوگ واپس نہیں آئیں گے .سیالکوٹ سے سمبروال تک کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا,لیکن وہاں سے انسانوں کے دوبڑے کارواں دو مخالف سمت میں جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے. سفر کرتے ہوئے ہم دیکھ سکتے تھے کے راستے میں لوگوں کا سامان بکھرا پڑا ہے البتہ لاشیں اٹھالیں گئی تھیں ,فضا میں تعفن بہت زیادہ تھا. یہ وہی وقت تھا جب میں نے دونوں ممالک کے درمیان اچھے روابط کو فروغ دینے کا خود سے وعدہ کیا, واہگہ سرحد پر شمع افروزی کا سلسلہ شروع کرنے کا سبب بھی یہی تھا “۔

کلدیپ نیّر آگے پرامید انداز میں لکھتے ہیں “میں نے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کو لکھا ہے کہ حکام,بارڈر سیکیورٹی فورس اور سینٹرل ریزروپولیس فورس کو ہدایت دیں کہ ہمیں شمع افروزی کے لیئے زیرو پوائنٹ تک جانے کی اجازت دی جائے, لیکن ایک دوسرے کے ملک میں آمدورفت کے لئیے روکنے والے خاردار تار اور ویزا کی سخت پابندیاں دیکھ کر مجھے دکھ ہوا. ماضی میں دانشورں,موسیقاروں,فنکاروں کی باہم ملاقات ہوتی تھی اور انکے مشترک پروگرام بھی ہوتے تھے,لیکن اب یہ بھی رک گیا ہے. دونوں طرف کی حکومتیں ویزا جاری کرنے میں سختی برت رہی ہیں , نو منتخب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ تجارت اور کاروبار کو یقینی بنائیں گے.مجھے فکر صرف یہ ہے کہ فوج سے انکی قربت شاید اپنا وعدہ پورا کرنے کی انہیں اجازت نہ دے لیکن ہوسکتا ہے کہ فوج سے انکی قربت کے زاویے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہو. نئی دہلی کو ایک کوشش کرنی چاہیے. دونوں ممالک کے درمیان پرخلوص روابط کے لیئے ہندوستان کے مطالبے کے پیش نظر عمران خان کو اقدام کرنے چاہیے.” (اقتباس)

بستر علالت پر ہونے کی وجہ سے شاید کلدیپ نیّر بھارتی کرکٹر اور صوبائی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کے دورہ پاکستان اور عمران خان کی تقریب حلف برداری کی تقریب میں جنرل باجوہ اور سدھو کا بھرت ملاپ نہ دیکھ پائیں ہونگے یا دیکھا ہوگا تو زندگی نے انہیں لکھنے کی مہلت نہ دی ہوگی ورنہ جنرل باجوہ اورعمران خان کی گرمجوشی اور کرتارپورکوریڈور پر آزادانہ نقل وحرکت کی خوشخبری انہیں ضرور شاد کرتی۔

جس ہندوستان کا خواب کلدیپ نیّر نے دیکھا تھا ہندوستان ویسا ہندوستان نہیں رہا۔مسلمانوں، مسیحیوں،سکھوں، دلتوں اور کیرالہ کے ملیالیوں کے خلاف نفرت کی شدید لہر نے ہندوستان کے ماتھے پر سجے تلک کو کلنک میں تبدیل کردیا ہے. سدھو کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ہندوستان کا نفرت اور بوکھلاہٹ سے بھرپور رویہ کلدیپ نیّر جیسے امن کے دیپ جلانے والوں کے لیئے کوفت کا باعث بنا ہوا ہے۔

کلدیپ نیّر مودی سرکار کی سرپرستی میں زور پکڑنے والی ہندو انتہا پسندی پر کھل کر لکھتے رہے ہیں. کلدیپ نے اپنی کتاب Scoop! Inside Stories From The Partition To The Present میں لکھا تھا کہ 1947 میں نئے ہندوستان میں داخل ہوتے ہوئے میں نے خود سے عہد کیا تھا کہ میں اس نئے ہندوستان کو ایسا دیس بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کروں گا جہاں مذہب کے نام پر انسانوں کے قتل کی گنجائش نہیں ہوگی,جہاں دھرم کے بجائے انسان کی قیمت ہوگی. افسوس کہ کلدیپ نیّر کا خواب پورا نہ ہوسکا. مودی دور میں شری رام اور گاؤماتا کے نام پر مسملمانوں پر ہونے والے مظالم پر انہیں گہری تشویش تھی لیکن انکی وفات کے بعد ہندوستان میں نوبت یہ آگئی ہے کہ ہندو مہا سبھا کے لیڈران اور ہندتوا کے پجاری کیرالہ میں آئی آفت کو بھی ملیالی قوم کے اعمال بد کا نتیجہ قرار دے کر ہندؤں کو مسلمانوں,مسیحیوں اور ملیالیوں کی مدد سے روک رہے ہیں۔

کیا ہندوستان کیا پاکستان دونوں طرف حکمران طبقہ نفرت کی بھٹی پر اقتدار کی روٹیاں سینکنے میں مصروف ہے. ہندوستان پاکستان کی سیاست میں مذہبی تقسیم اور نفرت اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ میل ملاپ کی بات کرنا گناہ ہے. ہم نے ہماری مشترکہ ثقافت کو مذہب کے چونے سے رنگنا شروع کردیا ہے. ہندوستان میں اردو زبان اور رسم الخط نفرت کا شکار ہے اور پاکستان میں دیوناگری. ہم نے تو پاکستان بنتے ہی شہروں اور مقامات کو مسلمان کرنا شروع کردیا تھا لیکن اب مودی اور یوگی سرکار کی مہربانی سے ہندوستان میں بھی مسلمان ناموں والے مقامات اور شہروں کے نام کو تبدیل کرکے انکا ” ہندونام کرن” کردیا گیا ہے کیونکہ اب نفرت ہی ہمارا دین اور دھرم ہے۔

مجھے ہندی فلم “ریفیوجی” کا یہ گیت بہت پسند ہے .
“پنچھی ندیا پون کے جھونکے, کوئی سرحد نہ انہیں روکے”
“سرحدیں انسانوں کے لیے ہیں؛ سوچو تم نے اور میں نے کیا پایا انساں ہوکے ؟”

واقعی ہم نے انساں ہوکے کچھ نا پایا کچھ نا سیکھا سوائے نفرت اور تقسیم کے, ہم نے اپنی سرزمین پر سرحد کی لکیر کھینچ کر آزاد روحوں کو آزادی کے نام پر پنجروں میں قید کردیا ہے. سرحد بھی ایسی کہ جسکی بنیادوں میں دس لاکھ انسانوں کا خون شامل ہے۔