کُردوں کا مُعاملہ
کامران نصیر ایڈوکیٹ
ترک افواج شام میں دو شمالی صوبوں الحسکہ اور الرقہ کرد تنظیم “سیرین ڈیموکریٹک فورس” کے زیر کنٹرول علاقوں کو زمینی اور فضائی حملوں کا نشانہ بنا رہی ہے جس کے باعث گزشتہ دو دنوں میں ۳۳۰ کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ ایک لاکھ لوگ نقل مکانی کر کے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ یہ دونوں علاقےکُرد آبادی پر مشتمل ہیں۔
یہ کُرد لوگ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟
ذرا تاریخ پر ایک نظرِمختصر ڈالتے ہیں۔ کرد قوم مختلف ممالک جیسے ایران، عراق، شام اور ترکی میں آباد ہیں۔ کُردوں کی تقریباً تیس ملین کی آبادی ان چار ممالک میں آباد ہے۔ یہ اپنی نسل، سماجی شناخت، لسانیات اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ تقسیم ہونے کے باوجود جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی اکثریت سُنی مسلمان ہے اور یہ یہاں کے مقامی لوگ ہیں جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ جنگ عظیم اول کے خاتمے کے ساتھ ہی فاتح مغربین نے کُردوں کی ایک الگ آزاد ریاست کا وعدہ “معاہدہِ لوئیذانہ” کے تحت کیا لیکن بد قسمتی سے بے شمار آزاد ریاستوں کے بننے کے باوجود کردوں کا خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہوسکا اور کُردّ قوم عراق، شام، ترکی اور ایران میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔
داعش کی ٢٠١٣ میں خطہ میں دہشتگردانہ کاروائیوں اور مختلف علاقوں میں قبضہ کے خلاف کُرد مقامی حکومتوں اور امریکہ کے اتحاد کا حصہ بن گئے اور یوں دھشتگردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف حصہ دار بنے بلکہ کئی علاقوں میں اکیلے داعش کو شکست دیتے ھوئے علاقے کو آزاد کروایا۔ ان کاروائیوں میں کُردش ڈیمو کریٹک یونین نے صف اول کا کردار لیکن ترکی کے اندر بسنے والے کُرد ایک عرصہ سے نہ صرف محرومیوں کی زندگی گزار رہ ہیں بلکہ ان کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ عبداللہ اوکلین نے ۱۹۷۸ میں کردستان ورکرز پارٹی نامی تنظیم کی بنیاد رکھی ، جس نے ترکی کے اندر بسنے والے کردوں کے حقوق اور قومی آزادی کی جنگ لڑنےکا فیصلہ کیا لیکن ترک حکومت کی سختی اور آپریشن کے نتیجے میں انہیں قومی آزادی جیسے مطالبات سمیت کئی دیگر مطالبات سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ بلکل اسی طرح شام میں بسنے والے کردوں نے ڈیمو کریٹک یونین پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ جس کے خلاف کاروائیوں میں اب تک دو سے اڑھائی لاکھ کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں۔ کُرد آبادی والے علاقوں میں نہ صرف غیرکُرد عربوں کو بسایا جا رہا ہے بلکہ کُرد قوم کی شناخت کی بناء پر ان کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں اور ان کے علاقوں میں آبادیاتی تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ عراق میں بسنے والے کُردوں نے بھی ۱۹۴۶ میں مصطفی بارذان کی قیادت میں کُردستان ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی اور اپنے ابتدائی دنوں میں ہی گوریلا جنگ کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جدوجہد آزادی کا آغاز کیا اور کئی علاقوں کا انتظام حاصل کیا یہاں تک کے صدام حسین کا تختہ الٹ کر کچھ حکومتی اختیارات حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
کُردوں کی اس جدوجہد اورتاریخی وضاحت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ کیسے ایک طویل عرصے تک نہ صرف اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف رہے بلکہ جہاں جہاں کُرد رہ رہے تھے وہیں مقامی حکومتوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر داعش کو شکست فاش بھی دی۔ جنگ میں عملی طور پر خو اتین اور مردوں نے حصہ لیتے ہوئے داعش کے دستوں کو مقبوضہ علاقوں سے باہر نکالا اور آزاد کروایا لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ نے بھی اِن علاقوں سے اپنی فورسز کو باہر نکال دیا۔ چونکہ ترکی اور شام میں بسنے والے کُردوں کے درمیان مضبوط آپسی روابط ہیں۔ بلخصوص شام کے شمالی صوبے حسکہ و راقہ اور ترکی میں رہنے والے کُردوں کے درمیان آپسی زمینی رابطے بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں آرٹیکل(4) 2 کے تحت ایک ریاست کی دوسری ریاست میں مداخلت غیر قانونی ہے، تاہم بین الاقوامی قوانین کی رو سے اس مداخلت کو کس بھی طریقے سے جواز نہیں دیا جا سکتا لیکن ترکی کو یہ بات کسی طور گوارہ نہیں کہ جس قوم پر انہوں نے ایک عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے حقوق غصب کر رکھے ہیں وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کی آواز بلند کریں۔ مختلف ممالک میں بسنے والے یہ منقسم کُرد ایک جسم ایک جان کی حثیت سے اپنی آزادی کی جنگ میں صبح شام مصروف ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں بھی مظلوم اقوام اپنے حقوق اور آزادی کی جدو جہد میں مصروف ہیں وہ تمام آزادی پسند اور جمہوری قوتوں کی حمایت کے متقاضی ہیں۔ ہم ریاست جموں و کشمیر کے عوام بھی ایسی ہی تقسیم کا شکار ہیں اور تقسیم کے درد کو خوب سمجھتے ہیں۔ کُردوں کے خلاف عسکری کاروائی کرنے والے نہ صرف قابض اور غاصب ہیں بلکہ ان کا یہ عمل قابل مذمت بھی ہے۔ ہم کُردوں کی قومی آزادی کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ اس کو تاریخی طور پر درست اور اصولی سمجھتے ہیں۔ کل تک ترکی نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر فلسطین کے علاوہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج کیا اور ایک لمبا چوڑا “بھا شن” بھی دیا۔ بلکل اسی طرح پاکستان نے کشمیریوں کے مسئلہ کو مسلمانوں کے حقوق کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن اپنے علاقائی اور اسٹرٹیجک مفادات کے پیش نظر آج ترکی کردوں پر فوج کشی کر چکا ہے اور پاکستان اُس کے اِس عمل کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔ مسلم امہ کا نعرہ اور طیب اردگان کا مسلمانوں کا ہیرو بننے کا جعلی ڈرامہ بری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ مسلم امہ اور دنیا کے دیگر ممالک کا اس حالیہ معاملے میں جو کردار ہے اس پر کئی سوالیہ نشانات لگ چکے ہیں۔ اُن ہزاروں کردوں کی ہلاکتوں، جائیداد اور ان کی زندگی کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے ؟