کپڑے اتارنا “لبرل ازم” نہیں
ماریہ رضوی
جب بھی کوئی شخص، خصوصاً عورت، اپنے آپ کو لبرل نظریات کا حامل بتاے تو کافی سارے لوگ اس سے کوئی اور ہی مطلب لیتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ مختصر طور پر بتانا ضروری ہے کہ لبرل ازم کس بلا کا نام ہے۔ یہ تحریر پڑھنے کے بعد عین ممکن ہے کہ آپ کی اپنے اندر چھپے ہوے لبرل سے بھی ملاقات ہو جائے، کیونکہ بدقسمتی سے لبرلز کے سینگ نہیں ہوتے۔
پہلی بات تو یہ کے لبرل ازم کپڑے اتارنے کا نام نہیں، ورنہ امریکا میں سارے نیم عریاں گورے ہی لبرل ہوتے (اگر آپ چونک گے ہیں تو ٹھیک چونکے ہیں)۔ آپ نے ایوانکا ٹرمپ کا نام تو سنا ہوگا؟ صدر ٹرمپ کی بیٹی؟ وہ لبرل نہیں اور اس کا اعتراف وہ برملا کرتی ہے. بھلے وہ ایک فیشن ماڈل رہی ہیں اور ابھی بھی ایک فیشن فرم کی مالک ہے لیکن وہ اپنے والد کی طرح اپنے نظریات کو قدامت پسند گردانتی ہے۔ لبرل ازم تحمل کا نام ہے، ایک نظریے کا، برداشت کا، جسے دوسرے نظریات کے برعکس آپ پڑھا کر کسی کو قائل نہیں سکتے۔ اس میں یقین رکھنے کے لیے اسے محسوس کرنا بنیادی شرط ہے۔ یہ ایک سفر ہے مشاہدات کا، تجربات کا، تخیل کا، روشنی کا، ایک قدم سے دوسرا قدم آگے بڑھانے کا، آزادی، وسعت فکراور سچ کا سفر جو ساری زندگی جاری رہتا ہے۔
اگرچہ اس موضوع پر کافی باتیں ہو سکتی ہے لیکن میں یہاں لبرل ازم کے “بنیادی فلسفہ” تک ہی اس مضمون کو محدود رکھوں گی، جو کہ شخصی آزادی اور انفرادی تحفظ کے گرد گھومتا ہے، یہی چیز اسے کمیونزم اور سوشلزم سے الگ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لبرل ازم کے نزدیک حکومت وقت کو انفرادی آزادیوں پر قدغن لگانے کا کوئی اختیار نہیں اور یہ انسانوں کا بنیادی حق ہے، لیکن کمیونزم میں کسی بھی حد تک ایسا کرنا کوئی بری بات نہیں اگر اس سے کمیونسٹ نظام کو تقویت پہنچے۔ کمیونزم میں انصاف کی کسوٹی اقتصادی ہے، جبکہ لبرل ازم میں شخصی آزادی۔
اسی طرح لبرل ازم اور جمہوریت بھی ہمیشہ اکھٹے نہیں رہتے۔ جمہوریت میں اکثریت کا راج تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن ضروری نہیں کے اکثریت ریاست میں بسنے والے تمام افراد کے تحفظ کی ضامن ہو۔ اسلام کے نزدیک سماجی آزادیوں کا منبہ شریعت ہے۔ بیشک شرعی حدود کے اندر شخصی آزادیوں سے وقتی طور پر حکومت کا نظام کمزور ہی کیوں نہ ہوتا ہو ریاست آپ کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے، لیکن شریعت کے حدود سے باہر آزادی ڈھونڈنے والوں پر ریاست کو تشدد کا پورا حق حاصل ہے۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ کچھ لوگ سیکولر ازم اور لبرل ازم کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں مذہبی جماتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ سرفہرست ہیں. یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں جو ایک جگہ اکھٹی تو ہو سکتی ہیں، لیکن ان کا ایک ساتھ رہنا ان میں سے کسی ایک کی بقا کے لیے بھی ضروری شرط نہیں۔ اس لیے کہ لبرل سماج ہوتا ہے جو ریاست کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے، جبکہ سیکولر کی اصطلاح ایسے نظام کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں مذہب کا حکومت (اوراصولی طور پر سیاست) سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، جیسے ہندوستان ایک سیکولر جمہوریت ہے، لیکن کیا وہ لبرل بھی ہے؟ فرانس میں مسلمانوں کے ساتھ روا امتیازی سلوک لبرل ازم نہیں، لیکن فرانس ایک بنیاد پرست سیکولر جمہوریہ ضرور ہے۔ برطانیہ میں حکومت اپنی تعریف کے لحاظ سے سیکولر نہیں لیکن سماج اور سیاست مکمل طور پر لبرل ہیں۔ ہماری تاریخ میں کئی سیاسی رہنما ایسے تھے جو مذہبی ہونے کے باوجود لبرل تھے۔مثال کے طور پر باچا خان، جو تہجد گزر تھے لیکن ان کا سیاسی نظریہ جیو اور جینے دو پر مبنی تھا، اس کے مقابلے میں قائد اعظم ایک کٹر مسلم نیشنلسٹ تھے جو سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیں اپنے مذہبی شناخت کی وجہ سے اکھٹی نہیں رہ سکتیں، ایک اور مثال مولانا عبید اللہ سندھی اور علامہ محمّد اقبال کی ہے، دونوں کی نجی زندگیاں انکے سیاسی فلسفے سے یکسر مختلف تھیں۔
لبرل ہونے کے لیے ملحد ہونا ضروری نہیں۔ مغربی دنیا میں مذہبی رہنما بھی لبرل دیکھے گے ہیں جو کہ “لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ” کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔سوشل میڈیا پر کچھ لوگ لبرلز اور ملحدوں یعنی ایتھیسٹس کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ روس اور مشرقی یورپ میں ملحدین کی اکثریت لبرل نظریات کی مخالفت کرتی ہے، خواہ وہ برداشت مذہب ہو، سیاسی آزادیاں یا پھرمہاجرین کے قومی کردار کے مطلق ہوں۔
ایک اور فرق جسے سمجھنا ضروری ہے وہ ملحد اور مذہب دشمن (اینٹی تھیسٹ) کے مابین ہے، ملحد اسے کہتے ہیں جو خدا کے وجود کا جزوی یا قطعی طور پر قائل نہ ہو، ایسے لوگ اتنے ہی لبرل ہوسکتے ہیں جتنے کے مذہبی لوگ۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں مذہب سے دوری، مذہبی دلائل پرعدم اطمینان اور سائنسی شواہد کی مذہبی نظریات سے ہم اہنگی نہ ہونا سر فہرست ہیں۔ دوسری جانب مذہب کا دشمن کبھی لبرل نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ دوسروں کے عقائد برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ اس کی ایک مثال کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور شامتِ رسول سلمان رشدی کی ہے۔ جسٹن ایک ملحد ہونے کے باوجود تمام مذاہب بشمول اسلام کا احترام کرتا ہے، لیکن سلمان رشدی مذہب کو (خصوصاً اسلام کو) ذہنی بیماری گردان کر اس کے خلاف پوری ہٹ دھرمی سے ڈٹا ہوا ہے۔
اگرچہ ریاست اور سماجی لبرل اقدار فرد کی انفرادی سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں، جس کے بدلے ریاست فرد کی شخصی آزادیوں کا دفاع کرتی ہے، لیکن فرد کا لبرل ہونا سماج کے لبرل ہونے سے مختلف اور حد درجے مشکل ہے کیوںکہ ان دونوں کے محرکات کی نوعیت میں تضادات پاے جاتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایک اسلامی جمہوری نظام کے ہوتے ہوۓ معاشرہ اور سیاست لبرل ہو سکتے ہیں؟ بیشتر مثالوں سے عکس کیا جاسکتا ہے کہ بلکل ایسا ممکن ہے. پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کے موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں ریاستی پالیسیوں کا لبرل ہونا ممکن ہے؟
میرے خیال میں یہ نہایت مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجموعی لحاظ سے لبرل ازم اقتصادی اور معاشی خوشحالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والےمعاشرتی رویوں کا نام ہے، نہ کے کوئی منظم تحریک، جو ریاستی نظام میں بتدریج تبدیلی کا باعث بنتی ہو۔ ایسی تبدیلی کے واقع ہونے کے لیے مضبوط اور توانا معاشرے کا ہونا اشد ضروری ہے۔ اس بتدریج تبدیلی کا فرق مذہبی طبقے اور جماعتوں پر بھی پڑتا ہے، جو ایسے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک ممکن نہ تھے۔ معاشی خوشحالی کے نکتے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک لبرل معاشرہ معاشی اعتبار سے کمزور ہونے لگے تو وہاں لبرل ازم کو دوبارہ بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، جیسا کہ کچھ سال پہلے مغربی یورپ “میں دیکھنے میں آیا، یا پھر امریکا کا کپتٹلسٹ ناکامیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ٹرمپ کا نافذ کردہ “مسلم بین”۔
لبرل ازم کے اس سفر میں انسان جہاں بہت کچھ سیکھتا اور سمجھتا ہے وہاں اکثر کو قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں، جو ضروری نہیں نظر بھی آئیں۔ یہ عموماً ان سماجی اور سیاسی عقائد کی قربانی ہوتی ہے جو انسان کو مشکل حالات میں ڈھارس اور حوصلہ دیتی ہیں، جیسے رنگ، نسل، ملک یا تاریخ کی بنیاد پر خود اعتمادی کا پیدا ہونا، مشترکہ دشمن کا تعین کر کہ اپنی ناکامیوں کی وجہ ڈھونڈنا وغیرہ وغیرہ۔ ان عقائد کے پیچھے ہزاروں سال کا سماجی ارتقائی عمل ہے۔
پاکستان میں لبرل ازم کے سب سے بڑے دشمن جہالت (اس سے میری مراد مجموعی سطح پر تعلیمی نظام کی بدحالی)، غربت، ناانصافی اور صحت کا غیر تسلی بخش نظام ہیں ( جی ہاں، بیماری بھی ایک بڑا عنصر ہے)۔ پھر لبرل معاشرے کے فعال ہونے کے لیے حکومت وقت کے خلاف “عوام کی نمائندہ” مؤثر حزب اختلاف کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں میں اقتصادی بنیادوں پر یکساں ترقی کے مواقوں تک رسائی کا نہ ہونا، ٹیکنالوجی (زمانے کے حساب سے) کے مثبت استعمال کا فقدان اور سب سے بڑھ کر عورتوں کا معاشرے میں کمزور ہونا بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں لبرلز یہ کہتے ہیں کہ اختلاف اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے، جس کا احترم ضروری ہے. خواہ غامدی صاحب جیسے مذہبی لبرل ہوں یا عاصمہ جہانگیر جیسی سیکولر، جب اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں یا مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بولتے ہیں، یا پھر فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو وہ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کام نہیں کر رہے ہوتے، وہ اصل میں آپ کی شخصی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔