کیا تنقید گناہ ہے؟
مہناز اختر
جی ہاں تنقید گناہ ہے اور اگر یہ تنقید سیاستدانون، اشرافیہ یا اکا برین سلطنت پر ہو تب تو گناہ کبیرہ ہے، کیونکہ یہ ’ہاؤس آف لارڈ‘ میں براجمان وہ مقدّس ہستیاں ہیں کہ تنقید تو کجا آنکھ بھر کر دیکھنا بھی قابل گرفت عمل ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی سے شادی عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے اور کسی کے ذاتی معاملہ پر بات کرنا کسی کی خلوت میں تاک جھانک کے مترادف ہے۔ مگر میری رائے ان سے مختلف ہے۔ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے قائد اور وزارت عظمیٰ کے دعویدار ہیں اور عوامی نمائندہ اپنے سیاسی نظریات اورذاتی کردار کو ہی عوام کی عدالت میں پیش کرکے ان کے ووٹ کا طالب ہوتا ہے، تا کہ ان کی نمائندگی اعلیٰ ایوانوں میں کرسکے تو پھر پاکستان کے کرپٹ سیاسی نظام، کرپٹ سیاست دانوں اور خلافت راشدہ کی مثالی حکومتوں کی دہائیاں دینے والے عمران خان تنقید سے بالاتر کیوں کر ہوسکتے ہیں؟
خان صاحب کبھی بنی گالہ کے سبزہ زاروں سے نیچے اتر کر کراچی کی کچرہ کنڈیوں سے رزق تلاش کرتے خیبرپختونخواہ کے بچوں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ پر روحانیت کے ہزاروں راز ایک لمحے میں عیاں ہو جائیں گے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ بنی گالہ کے پالتو کتوں کی زندگی ان بچوں سے ہزار گنا بہتر ہے۔ خان صاحب خیبرپختونخواہ کے بچے اور نوجوان کراچی میں منشیات فروشوں، جرائم پیشہ عناصر، دہشت گرد تنظیموں اور جنسی درندوں کا آسان ترین شکار ہوتے ہیں یا پھر نقیب اللہ کی طرح کسی راؤ انوار کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور آپ ہیں کہ اب تک ازدواجی زندگی کے سکون کی کھوج میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف سوات کی عوام گزشتہ کئی ہفتوں سے اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور آپ کی بے نیازی عروج پر ہے۔ خان صاحب جس استحصالی نظام کے خاتمہ کے خواب آپ نے پاکستانی عوام کو دکھائے تھے آج آپ اسی نظام کا حصّہ ہیں۔ لودھراں کی سیٹ پر جہانگیر ترین کے صاحبزادے کو الیکشن میں کھڑا کرنے کا فیصلہ آپ کی پالیسیوں کی عکّاسی کرتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب ایک ایسے صوبے کے رہنما ہیں، جو غربت، پولیو، دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، خواتین اور بچوں کے حوالے سے ہونے والے جرائم و استحصال، ملٹری آپریشنز اور ڈرون حملوں سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ خیبرپختونخواہ کے متاثرہ عوام ان حالات سے تنگ آکر دوسرے صوبے اور شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اوراس صورتحال میں بھی خان صاحب کی دلچسپیاں نکاحوں میں زیادہ نظرآتی ہیں۔
میری ناقص رائے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی اور بشریٰ بی بی کی روحانیت واقعی ذاتی نوعیت کے معاملات ہیں مگر خان صاحب یہ شوق اکثر ایسے موقع پر پورا فرماتے ہیں جب ملک نازک دور سے گزر رہا ہوتا ہے اورتوقع یہ کی جاتی ہے کہ عوام ردعمل سے پرہیز کرے کیونکہ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔
روحانیت اور معرفت انتہائی ذاتی نوعیت کے باطنی تجربات ہیں اور اس کا اطلاق کسی بھی فارمولہ کے تحت عوامی سطح پر نہیں کیا جاسکتا مگر بدقسمتی سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے باہمی روحانی تجربات کو عوامی بنا کر عوامی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے تاکہ پیری اور مریدی کے عشق اور توہم پرستی میں مبتلا عوامی طبقات کو اپنے حلقہ اثر میں لایا جاسکے۔
خان صاحب آپ اس شادی سے جڑی متنازعہ باتیں، خیبرپختونخواہ کی حالت، ریحام خان کے شکوے اور عائشہ گلالئی کے الزامات کو بشریٰ بی بی کے گھونگٹ کے پیچھے نہیں چھپا سکتے کیونکہ پاکستانی عوام آپ سے سوال کریں گے۔ اور خان صاحب بشری بی بی کے گھونگٹ کو روحانیت اور معرفت کا نمونہ بنا کر پیش نہ کریں ورنہ آپ کے جلسوں اور دھرنوں میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہونے والی ماڈرن خواتین کو بے حیا اور روحانیت سے عاری تصور کیا جائے گا۔ خان صاحب پاکستان اور خصوصاً خیبرپختونخواہ کی عوام نے گزشتہ الیکشن میں آپ پر اعتماد ظاہر کیا اور آپ کو خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ خیبرپختونخواہ کی حکومت آپ کی صلاحیتوں اور نظریات کا امتحان تھی مگر امتحان کے نتائج دیکھ کرایسا نہیں لگتا کہ آئندہ کے الیکشن میں پاکستانی عوام وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے آپ پر اعتماد کریں گے۔