کیا مسئلہ کرپشن ہے؟

عاطف توقیر

میری عمر نو سال تھی، جب ضیاالحق حادثے کے نتیجے میم مارے گئے اور ساتھ ہی ملک سے مارشل لا کا خاتمہ ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں اور ساتھ ہی میں نے کرپشن کرپشن کی تکرار بھی سنی۔ جانے کیوں مارشل لا کے دنوں میں ہمارے ہاں یہ لفظ غائب ہو جاتا ہے۔

دو ہی برس میں ان کی حکومت کا خاتمہ کرپشن کے الزامات پر ہو گیا اور اس دوران غیرمحدود طریقے سے ایک طرف تو یہ بات بھی ہمیں سنائی جاتی رہی کہ محترمہ پاکستان کے جوہری اثاثے ختم کرنے کے درپے ہیں اور بھارت سے تعلقات بہتر کر کے پاکستان کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف اچانک ملک کی حفاظت کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کی صورت میں نواز شریف کو اقتدار بھی مل گیا۔

دو سال بعد ان کی حکومت بھی کرپشن ہی کے الزامات کے تحت ختم ہو گئی اور پھر محترمہ وزیراعظم بن گئیں، کچھ عرصے بعد ان کی حکومت بھی ختم ہو گئی اور معاملہ پھر کرپشن تھا۔ نواز شریف اس بار بڑا مینڈیٹ دے کر ایوان اقتدار میں بھیجے گئے تاہم ملک ختم ہو جائے گا کا ایک گیت بیک راؤنڈ میں مسلسل چلتا رہا۔

سن انیس سو ننانوے میں میری عمر بیس برس تھی، جب مشرف نے ایک بار پھر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور قوم کو بتایا کہ ملک دیوالیہ ہو رہا تھا۔

ایسے میں نائن الیون ہو گیا اور ہم نے فوجی اڈے اور ملکی سالمیت اور حاکمیت اعلیٰ ایک مرتبہ پھر امریکا کو دے کر ڈالر لینا شروع کر دیے۔ اس دوران کرپشن کا گیت مسلسل سنائی دیتا رہا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کرپٹ ہیں۔ نواز شریف مشرف سے ڈیل کر کے پاکستان سے سعودی عرب روانہ ہو گئے اور اس دوران بے نظیر بھی جلاوطن رہیں، آصف علی زرداری طویل عرصے تک جیل میں رہے اور کرپشن کرپشن کا گیت بھی چلتا رہا۔

کرپشن کا یہ گیت اتنا تسلسل سے میرے کانوں میں پڑتا رہا ہے کہ مجھے ملک کے زیادہ تر مسائل کی وجہ کرپشن ہی معلوم ہوتی تھی۔ مگر سوال یہ تھا کہ کرپشن کیوں ہوتی ہے؟ اور جن ممالک میں یہ کم ہوتی ہے، کیوں کم ہوتی ہے؟ یا اگر مسائل کی جڑ کرپشن ہی ہے، تو کیا دیگر مسائل اس کی وجہ سے ہی پیدا ہو رہے ہیں؟ یا کرپشن ختم کر دی جائے تو کیا تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو کرپشن ختم کیسے کی جا سکتی ہے؟

جذباتی جواب یہ تھا کہ ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح کی بدعنوانی میں ملوث ہو است سزا دینا چاہیے تاکہ کرپٹ طریقہ ہائے کار کی حوصلہ شکنی ہو۔ پھر سوال یہ تھا کہ کرپٹ ہوتا کیا ہے؟ کوئی مشین ٹھیک سے کام نہ کرے تو کہتے ہیں یہ کرپٹ ہو گئی ہے جیسے  کوئی کمپیوٹر ڈسک۔

دنیا میں ایسا تو کوئی ملک نہیں جہاں کرپشن صفر ہو مگر اس موضوع پر دنیا کے ان ممالک کو دیکھا جہاں کرپشن کم ہوتی ہے، تو نتیجہ یہ تھا کہ ان ممالک میں سویلین ادارے ایک دوسرے پر نگاہ رکھتے ہیں، کوئی شخص کرپشن کرنا تو چاہتا ہے، مگر کرپشن کرنا آسان نہیں، اختیارات کی تقسیم اس طرح مختلف اداروں کے درمیان نتھی ہوتی ہے، کہ مشکل سے کوئی ایک کام کوئی ایک شخص براہ راست کر سکتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر قانونی سرگرمی میں نہیں پڑ سکتا۔

پھر سوال یہ تھا کہ ہمارے ہاں سویلین ادارے کیوں کم زور ہے؟ آسان جواب تھا کہ کرپٹ سیاست دان ادارے بننے نہیں دیتے، مگر اگلا سوال یہ تھا کہ ایسے کرپٹ سیاست دان لاتا کون ہے؟ اور کیا شفاف کردار کے حامل افراد ملک میں موجود نہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی سویلین ادارہ جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟ اور اس کو کم زور کرتا کون ہے؟

اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کرپشن انڈیکس میں پاکستان پچھلے دس برسوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنا رہا تھا۔ سن 2009 میں پاکستان دنیا کا ایک سو چوالیسواں شفاف ترین ملک تھا، جب کہ 2016 میں پاکستان ایک سو سترہویں نمبر پر آ چکا تھا۔

مگر بچوں کی تعلیم، پولیس، نوزائیدہ ہلاکتوں، پاسپورٹ انڈیکس، داخلی سکیورٹی، صحت، خواتین کی برابری، اقلیتوں کے حقوق اور افراط زر، مہنگائی اور ان جیسے دیگر اہم ترین انڈیکس میں پاکستان انتہائی برے مقام پر ہے، تاہم قومی توجہ ان مسائل سے زیادہ آسانی سے بک جانے والے نعروں پر مرکوز ہے۔

یاد رکھیے، کرپشن ایک ناسور ہے، مگر اس ناسور کے دپردہ بیماری کچھ اور ہے۔ کرپشن بیماری کی علامت ہے، اصل بیماری اداروں کا فعال نہ ہونا ہے۔ اور اداروں کے فعال نہ ہونے کی وجہ جمہوریت اور جمہوری رویوں کا موجود نہ ہونا ہے۔

بدقسمتی لیکن یہ ہے کہ ہم معاشرتی طور پر کوئی چودہویں پندرہویں صدی میں جی رہے ہیں، جب کہ ہماری آنکھوں کے آگے ٹی وی اکیسیوں صدی کی تصویر دکھا رہا ہے۔ بدقستمی لیکن یہ بھی ہے کہ جمہوریت تک پہنچنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں اور وہ ایک پیٹر کی طرح ہے، جس کا بیج ایک نسل بوتی ہے، اگلی نسل اس کی آب یاری کرتی ہے اور پھر شاید اس سے اگلی نسل کا اس کا پھل کھانے کو ملتا ہے۔ اگر پاکستان بننے کے وقت موجود نسل کسی طرح جمہوریت کے لیے کھڑی ہو جاتی اور ملک میں مارشل لا اور دیگر غیرجمہوری اور غیردستوری کاموں کا راستہ روک لیا جاتا، تو آج کی نسل کو ایک بہتر اور جمہوری پاکستان مل جاتا۔ اسی طرح اگر آج کی نسل نے جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے اپنی آواز نہ اٹھائی اور غیرجمہوری اور غیردستوری رویوں کا راستہ نہ روکا، تو ہمارے بعد آنے والی نسل بھی ٹھیک ایسے ہی پاکستان میں رہ رہی ہو گی، جس پاکستان میں ہم اس وقت موجود ہیں۔

کرپشن کا خاتمہ صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب ملک میں اداروں دستور کے مطابق کام کریں اور ہر ادارہ دوسرے ادارے اور اہلکار کے افعال اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھے۔ یاد رکھیے کرپشن کی سرکوبی کرپشن پر سزاؤں سے بھی زیادہ کرپشن کا راستہ روکنے سے عبارت ہے۔ جب تک کرپشن کا راستہ نہیں روکا جاتا، نہ کرپشن رک سکتی ہے اور نہ کرپشن کے سستے نعرے کے نام پر ملک میں جمہوریت کا قتل۔