کیا پاکستان اور اسرائیل مل بیٹھنے والے ہیں؟
آصف خان بنگش
اسرائیلی خبر رساں ایجنسی Haaretz میں آج ایک مضمون چھپا کہ کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔ زیر نظر تصویر یکم ستمبر 2005 کی ہے جب پاکستان بننے کے بعد پہلی بار مشرف کے دور میں پاکستان اور اسرائیلی وزرائے خارجہ کی پہلی باقاعدہ سرکاری بیٹھک ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی۔
پاکستان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی ابتداء بھی جنرل مشرف نے پیرس میں ایک انٹرویو میں کی جس میں انہوں نےکہا کہ اب وقت بدل گیا ہے اسرائیل ایک حقیقت ہے اور اس کے ساتھ بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اب جب عرب بشمول فلسطینی بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے ہیں تو پاکستان کو بھی اس پر سوچنا چاہیے۔ اس انٹرویو کے صرف دو برس بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ پہلی بار ملے اور یہ دونوں ممالک کے قیام کے بعد پہلی ملاقات تھی۔
کچھ ماہ قبل ایک اسرائیلی صحافی نے نیتن یاہو کی اسلام آباد آمد کی خبر چلائی جس پر کافی چہہ مگوئیاں ہوئیں دونوں طرح کا ردعمل سامنے آیا لیکن جس بات کو اسرائیلی میڈیا اور سوشل میڈیا میں بریکنگ نیوز کی طرح دیکھا گیا وہ پاکستان کے چند نامور صحافیوں کا اسرائیل کے تعلقات اور اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کو کھل کر بیان کرنا اور رائے عامہ بنانا ہے۔https://www.haaretz.com/world-news/.premium-is-pakistan-preparing-to-recognize-israel-1.7773360
اس بات کو اہمیت اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ بقول اسرائیلی میڈیا پاکستان میں جہاں سینسرشپ عروج پر ہے اور صحافی ایک ٹویٹ اپنی مرضی سے نہیں لگا سکتے وہاں نامور میڈیا چینلز کا یوں کھل کر بات کرنا فوجی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اسرائیل جیسے نازک مسئلے پر بات صرف یا تو ملٹری ڈکٹیٹر نے کی ہے یا ان کی آشیرباد سے قائم حکومت کر سکتی ہے کہ اس پر ہونے والے ردعمل کا حکومت پر اثرانداز ہونے کا ڈر نہیں ہے۔
ایک اور اہم پہلو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی کشمیر میں ہونے والی پیش رفت پر مسلسل اسرائیلی میڈیا و سوشل میڈیا پاکستان کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے اور وہ بھی یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ جبکہ اسرائیلی یہ موقف رکھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان سے تعلق رکھنے کے لیے پہل کی ہے۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے جناح کو خط لکھا لیکن اسکا کوئی جواب نہ آیا۔ عرب اسرائیل جنگ میں بھی پاکستان نے درپردہ عربوں کی مدد کی جبکہ اس کے برعکس سوویت جنگ میں اس کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ امریکی چھتری تلے کام بھی کرتی رہی۔
مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں جب اس کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکی آشیرباد کے بعد عرب ممالک خصوصا سعودی عرب اور عرب امارات آگے بڑھے اور عالمی بینک نے بھی مدد کی حامی بھری تا کہ واشنگٹن کو اس کی پالیسی سازی میں حصہ ملے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جب عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلق تیزی سے استوار کر رہے ہیں پاکستان کو بھی ریاض و واشنگٹن سے گرین سگنل ملنے کا انتظار ہے۔ اگر سعودی عرب ٹرمپ کی سربراہی میں اسرائیل سے خطے میں امن کا معاہدہ کرتا ہے جس کے بارے میں کہا یہ جارہا ہے کہ اس کا مسودہ بھی تیار ہے اور اس کے لیے رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے تو ایسے میں پاکستان کو اپنے دوست ممالک کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ مل بیٹھنے میں شاید اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔