کیا ہم زندہ قوم ہیں؟
دردانہ فرید
انسان ترقی کی طرف بہت تیزی سے گامزن ہے۔ یہ بات بھی اب کئی برس پرانی ہو چکی۔ جتنی تیزی سے انسان نے ترقی کی ہے، انسانیت اتنی ہی تیزی سے پستیوں کی طرف بڑھی ہے۔
ہم نے اپنی زندگی میں جتنی وارداتیں انسانیت کے خلاف دیکھ لی ہیں ان کا شمار کرنا ناممکن ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کسی بھی حادثے کی خبر پڑھتے وقت خبر پڑھنے والے کا گلا رندھ جاتا تھا ۔ آج انسانیت پہ حادثے گزرنے کی خبریں ہم اپنے دسترخوانوں پر سنتے ہیں اور سر جھٹک کر برتن دھونے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
16 دسمبر 2014 کی صبح بھی ایک ایسے ہی حادثے کی صبح تھی۔ میں اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھی جب سامنے ٹی وی اسکرین پر بی بی سی پرخبر چلی کہ دہشت گرد آرمی پبلک سکول میں گھس گئے ہیں اور ان کی گولیوں کا نشانہ معصوم بچے ہیں۔ پہلے تو یقین کرنا مشکل تھا کہ کون سا ایسا درندہ ہو سکتا ہے جو بچوں کو گولیوں سے مارنے کے مشن پر نکلا ہو گا۔ خبریں مسلسل تھیں اور مرنے والے معصوم بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔
میرا دماغ شل ہو گیا اور کام کرنا تو کیا سوچنا بھی دوبھر ہو گیا۔ مگر مجھے یاد ہے کہ اس بھیانک حملے کے بعد کچھ ہی دیر میں ہر طرح کا کاروبار اسی طرح چل رہا تھا۔ سیاسی بیانات اور مزمتیں زوروں پر تھیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا گٹھ جوڑ جہاں نا صرف چائے کا دور بنا بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے دیکھا گیا۔ میڈیا نے بھی اس حادثے کا حسب معمول خوب فائدہ اٹھایا۔
میرے اپنے جاننے والوں نے اپنی تقریبات ملتوی نہیں کی۔ شادیاں بھی ہوئیں دعوتیں بھی چلیں۔
یہ سب دیکھ کر انسانیت پر یقین کرنے کے سارے جواز ختم ہو جاتے ہیں۔
آج اس ہولناک واقعے کو تین سال مکمل ہو چلےہیں کچھ احباب اپنے فیس بل و کور فوٹو تبدیل کریں گے۔ میڈیا اس واقعے کو دوبارہ کیش کرے گا اور ادا کاری کا ایک بازارگرم ہوگا۔
ان معصوم جانوں کے بچھڑنے کا دکھ اور کرب اٹھانے والے ماں باپ اس سارے تماشے کو کس دل سے برداشت کریں گے، یہ وہی جانتے ہوں گے۔
اس واقعے کو اگر عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا جوابی وار تھا جو شاید دہشت گردوں نے اپنے عورتوں اور بچوں کی جانوں کا بدلہ لینے کو کیا۔
تحریک طالبان پاکستان اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ یہ ضرب عضب کی جوابی کاروائی تھی. جس تکلیف سے وہ گزرتے ہیں اسی سے وہ اپنے دشمن کو دوچار کرنا چاہتے ہیں
اور اس طرح دونوں جانب بچے مر رہے ہیں۔
2009 سے لے کر اب تک سکولوں پر 1000 حملے ہو چکے ہیں جب کہ ہمارے سیاسی رہنما ناکام پالیسیاں بنانے سے زیادہ اور آپس میں اختلاف رائے سے زیادہ کچھ خاص اقدام نہیں کر پائے ہیں۔ ہماری فوج ایک ناکام سیاسی ڈھانچے کی موجودگی میں بے شمار داخلی تنازعات کا شکارہے۔
ایسے حالات میں قوم ایک ہیجان اور افرا تفری کا شکار ہے۔ ہر انسان نجی بقا کی فکر میں جتا ہے، جیسے ’قومیت‘ فوت ہو گئی ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے مگر ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس بات پر پریشان ہیں اور اس ہنگامی حالت کو بدلنے کے لیے اپنے مفادات کو پس پشت ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے اپنا حال قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کیوں کہ زندہ قومیں ایسا ہی کرتی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب ہم ایک زندہ قوم ہیں؟