گستاخانہ خاکے اور نازیوں کے ہاتھوں کی جانے والی یہودیوں کی نسل کشی
مہناز اختر
کیا ایک غلطی کو دوسری غلطی سے درست کیا جاسکتا ہے؟ کیا کسی مکروہ عمل کا بدلہ دوسرے انسانیت سوز عمل سے لیا جاسکتا ہے؟ کیا آپ “گستاخانہ خاکوں” اور “یہودیوں کی نسل کشی” میں سے ایک کو ناجائز اور دوسرے کو جائز سمجھتے ہیں ؟
اگر آپ کے ذہن میں ان سوالات کے جواب “ہاں” میں آرہے ہیں تو آپ وہی غلطی کررہے ہیں جو کل ایڈولف ہٹلر نے کی تھی اور آج گیئرٹ ولڈرز اور ویراتھو عرف “برمیز بن لادن” کررہے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ خاکوں کے ردعمل کے طور پر نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی کے واقعے کا انکار اور کہیں نسل کشی کی حمایت کی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تمام یہودی صہیونی اور اسلام مخالف ہیں۔ حالانکہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ تمام یہودی صہیونی اور اسلام مخالف نہیں ہوتے۔ گستاخانہ خاکوں کو تمام یہودیوں یا مغربی دنیا سے جوڑ کر دیکھنا ویسا ہی ہے جیسا کہ غیر مسلم دنیا میں یہ بات ازراہ طنز مسلمانوں سے کہی جاتی ہے کہ تمام مسلمان دہشتگرد تو نہیں لیکن سارے دہشتگرد مسلمان ہوتے ہیں۔
میں نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی کی تاریخی حقیقت پر بات نہیں کرونگی کیونکہ اس پر پہلے ہی بہت سارا تحقیقی مواد موجود ہے ساتھ ساتھ اسکے انکار پر بھی مغرب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس موضوع پر متفرق آراء موجود ہیں اور یہ آپکا ذاتی معاملہ ہے کہ آپ اس موضوع پر خود کو کہاں کھڑا کرتے ہیں۔
آج کے مضمون کا بنیادی مقصد یہ سوال اٹھانا ہے کہ کیا گستاخانہ خاکوں کے جواب میں یہودیوں کی نسل کشی کے واقعے کا انکار درست عمل ہے اور کیا یہ کہنا درست ہے کہ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ ٹھیک کیا کیوںکہ یہ قوم اسی سلوک کی مستحق ہے؟
مسلمانوں کی جانب سے یہودیوں کی نسل کشی کا انکار خود مسلمانوں کے لیئے نقصان دہ ہے۔ توجہ طلب نقطہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم مغرب سے آزادی اظہار رائے کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے اور مذہبی تعصب برتے جانے پر شکوہ کنا ہیں لیکن دوسری طرف ہم نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی بدترین نسل کشی اور استحصال کی حمایت بھی کرتے ہیں۔
نسل پرست ہٹلر کو یہودیوں سے نفرت تھی اسکے مطابق یہودی جرمنی کی معاشرت اور معیشت پر اثرانداز ہورہے تھے ۔ یہودیوں کے خلاف اس نفرت کو عوامی جواز ملنے کی ایک وجہ یہودی اور مسیحی اقوام کے درمیان پائی جانے والی صدیوں پرانی مذہبی رقابت بھی تھی اور یہ تاثر عام تھا کہ یہودی ایسے ہی ہیں, انکے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے اور انہیں ملک بدر کردینا چاہیے اس لیئے اس وقت جرمن معاشرے میں اس نعرے کو تقویت ملی کہ Jews are unwanted here اور پھر اسی تناظر میں جرمنی میں یہودی مخالف قوانین سازی کا آغاز بھی ہوا۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ سیہوفر کہتے ہیں کہ Islam does not belong to Germany حالانکہ جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل کہہ چکی ہیں کہ مسلمان جرمن معاشرے کا حصّہ ہیں ۔
گیئرٹ ولڈرز کا کہنا ہے “اسلام مذہب نہیں بلکہ ایک مسئلہ ہے۔ اسلام یورپ میں ٹروجن گھوڑے کی مانند ہے اور اگر ہم نے یورپ میں اسلامائزیشن کو صحیح وقت پر نہیں روکا تو بہت جلد یورپ یوعربیہ اور نیدرلینڈ نیدعربیہ میں تبدیل ہوجائے گا ۔ایک صدی پہلے نیدرلینڈ میں بمشکل پچاس مسلمان تھے لیکن آج انکی تعداد ایک ملین کے قریب ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ دراصل ڈچ اور یورپی ثقافت کی موت ہے۔ تو ہمیں دوسری اقوام کے لیئے عدم برداشت پر مبنی اس نظریے کے خاتمے کے لیئے اس کے خلاف عدم برداشت کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے” ۔ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ ولڈرز کی جانب سے اسی اسلام مخالف مہم کا حصّہ ہے۔
اب ذرا جنوبی ایشیاء میں اسلام یا مسلمان مخالف فکر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ولڈرز سے انتہائی مشابہ نظریات برما کے بدھسٹ راہب ویراتھو عرف “برمیز بن لادن” کے ہیں۔ ویراتھو کی نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نے برما میں روہنگیا مسلمانوں کے استحصال,ملک بدری اور نسل کشی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ویراتھو کے مطابق مسلمان ایک ظالم اور وحشی قوم ہیں اور برما میں مسلمانوں کی موجودگی خصوصاً روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی برمی معاشرت,معیشت اور سالمیت کے لیئے خطرہ ہے اور یہ اسی سلوک کے مستحق ہیں ۔
نفرت اور تعصب پر مبنی ایسی ہی ذہن سازی ہندوستان میں آرآرایس اور ہندتوا حامی سیاسی اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہندو مذہب اور ثقافت کے لیئے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا ہے تو انہیں خود کوبحیثیت ہندو شناخت کرنا ہوگا,گائے کو مقدس سمجھنا ہوگا,ہندوستان کو بھارت ماتا اور بھاگ ودھاتا کا درجہ دینا ہوگا اور وندے ماترم کہنا ہوگا ورنہ بھارت میں مسلمانوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
دوسرے مذاہب سے متعلق ایسی ہی تنگ نظری اسلامی دنیا میں بھی موجود ہے مثال کے طور پر سعودی عرب اور ایران میں مسلکی نظریات کے فرق کی وجہ سے دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اورغیر مسلم اقلیتوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ یہاں پاکستان میں قادیانی برادری تعصب اور نفرت کا شکار ہے ۔ قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں انہیں مسلمان سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں پاکستان میں مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے حتٰی کہ قادیانی اپنی عبادت گاہ کے نام کے ساتھ لفظ “مسجد” تک نہیں لکھ سکتے۔
قوم پرستی ,نسل پرستی اور شدت پسندی پر مبنی مذہبی تعصب آج پوری دنیا کے لیئے ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ گستاخانہ خاکوں پر احتجاج ہر مسلمان کا حق ہے ۔ ہمیں طے صرف یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے احتجاج سے اسلام دشمنی پر مبنی اس رویے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی ناعاقبت اندیشی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں تکریم اسلام سے پہلے تکریم انسانی حقوق اور تکریم مذاہب پر متفق ہونا پڑے گا تبھی جاکر ہم دنیا سے تکریم اسلام کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ ورنہ دنیا میں ہر جگہ ہر قوم میں ایسے قوم پرست اور قدامت پسند لوگ موجود ہیں جو ایڈولف ہٹلر کو اپنا ہیرو مانتے ہیں اور ہٹلر کو ہیرو ماننے والا شخص تکریم انسانیت اور تکریم مذاہب کا قائل نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگ اپنے سیاسی ,قومی اور نسلی مفاد و انا کی خاطر دوسری قوم کی تذلیل، انکے حقوق کی پامالی اور انکے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہچانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اکثر مسلمان نازیوں کے ہاتھوں کی جانے والی یہودیوں کی نسل کشی کو جائز سمجھتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اطلاعات فیّاض الحسن چوہان حضرت عمر فاروق اور ایڈولف ہٹلر کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ فیّاض اکیلے نہیں ہیں آپ کو دنیا میں ہر جگہ ایسے مسلمان ملیں گے۔ تھوڑی گہرائی میں جاکر سوچیں اور خود سے سوال کریں کہ کیا عمرفاروق اور ہٹلر کی شخصیت میں کوئی مماثلت ہے؟
توہین انسانیت اور توہین مذہب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور انکا بہترین جواب تکریم انسانیت اور تکریم مذاہب ہے۔ آج ہمیں دنیا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہم اس دین کے پیروکار ہیں جو کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور تم کسی کے معبود کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لاعلمی میں اللہ کو برا کہے ۔ آج ہمیں دنیا کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ ہمارے رسول کی بے حرمتی کریں گے تو ہم جواباً آپ کی مقدس شخصیات اور انبیاء کی بے حرمتی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم تمام انبیاء کرام پر ایمان رکھتے ہیں۔