گلگت بلتستان اور سقوط کشمیر

 کامران امتیاز

تقریبا 15 لاکھ نفوس پہ مشتمل گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیرواقصائے تبت کا شمالی علاقہ ہے۔ یہ خطہ اپنے دیومالائی حسن،  بلند ترین چوٹیوں،  برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغات کی وجہ سے کسی جنت ارضی سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خطہ بے پناہ جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کا حامل ہے اس کی سرحدیں چار ممالک چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ شاہراہ قراقرم بھی اسی علاقے سے گزرتی ہوئی پاکستان کو چین سے ملاتی ہے۔ اور اب پوری دنیا کی نظروں میں کھٹکتا منصوبہ سی پیک بھی گلگت بلتستان کے بغیر ایک پائی کی اہمیت نہیں رکھتا۔ پاکستان کو چین سے ملانے والا واحد زمینی راستہ گلگت بلتستان ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس خطہ کی جغرافیائی اوردفاعی اہمیت کی بدولت قائداعظم کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیتے تھے۔ پاکستان نے بھارت سے تین بڑی جنگیں، 48 کی جنگ، کارگل جنگ اور سیاچین جنگ اسی خطہ سے لڑی۔

پاکستان کی آزادی کے وقت یہ خطہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ مقامی بغاوت کے نتیجے میں میں جب یہ خطہ آزاد ہوا تو مقامی لوگوں نے  پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہا لیکن حکومت پاکستان نے اسے ضم کرنے کے بجائے متنازع ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا یہ فیصلہ قائداعظم محمد علی جناح وزیر اعظم لیاقت علی خان اور سر ظفر اللہ خان نے کیا۔ قائداعظم کی سیاسی بصیرت کو اس بات کا اندازہ تھا کہ مستقبل میں استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز زیادہ مؤثر اسی صورت ہوگی جب گلگت بلتستان کی عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔ آزاد جموں و کشمیر میں مہاراجہ کی طرز حکومت پر ایک پوری ریاست قائم کی گئی اور طے یہ پایا کہ 21 اپریل 1948 کو منظور کردہ قرارداد کے مطابق حق رائے دہی کی بنیاد پر  ریاست جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے باشندے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں گے۔ سلامتی کونسل ہو یا دیگر عالمی فورم پاکستان نے اپنی اسی پوزیشن کو دہرایا۔ اس قرارداد کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان تشکیل دیا گیا جس نے نقشوں کے ذریعے جموں و کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کو بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقوں میں شامل کیا تھا۔ یہ قانونی اور دستاویزی ثبوت عالمی فورم پر موجود ہے بعد ازاں حکومت پاکستان، آزاد کشمیر حکومت اور مسلم کانفرنس کے نمائندوں کے درمیان 28 اپریل1949 کو کراچی میں ایک معاہدہ ہوا۔ جسے معاہدہ کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے اس معاہدہ میں اختیارات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ حکومت آزاد کشمیر نے گلگت بلتستان کا کنٹرول عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کیا معروضی حالات کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ کہیں ہندوستان اسے آسان ہدف سمجھ کر حملہ نہ کر دے اس لیئے یہ امانت حکومت پاکستان کے حوالے کر دی گئی کیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ کی دستاویز الحاق نامہ کی رو سے بھارت دعویدار تھا اور اسے اپنا حصہ سمجھتا تھا۔ دوسرا کشمیر اور گلگت بلتستان میں زمینی راستہ بھی کمزور تھا اس لیے بھارت کے ممکنہ حملے کی کوشش کو روکنے کے لیئےعارضی طور پر گلگت بلتستان کا کنٹرول حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا۔

یوں گلگت بلتستان میں ایف سی آر جیسے کالے قانون اور اس کی محرومیوں کے دور کا آغاز ہوا۔ اگرچہ بعد کی ادوار میں آزاد کشمیر کی قیادت میں گلگت بلتستان کو اپنے زیر کنٹرول لانے کی بے شمار  کوششیں کیں۔ مثال کے طور پر 1972 میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے اس بابت ایک قرارداد منظور کی  جبکہ ریاست کے عبوری آئین 1974 میں بھی گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے 1992 میں تاریخی فیصلے میں معاہدہ کراچی کو عارضی قرار دے کر ختم کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیا۔ اگر چہ اسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر نادرن ایریاز پر پاکستان کے انتظامی کنٹرول کو قانونی اور درست قرار دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت نے مسئلہ کشمیر جیسے عالمی  اور نظریاتی مسئلہ کو دونوں ممالک کا زمینی تنازع قرار دیا اور اس کو بائی لیٹرل کا  نام دیا جس سے اس مسئلے کے اصل فریق کو ہی باہر نکال دیا گیا اس سے پہلے 1963 میں جب بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے تو گلگت بلتستان سے متصل پانچ ہزار ایک سو اسی کلومیٹر علاقہ چین کے حوالے کیا اور ریاست کی باقاعدہ تقسیم کا آغاز کیا۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ بالخصوص امریکہ بہت پہلے ہی یہ خاکہ تیار کر چکا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل اس کو  تقسیم کرنا ہے پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولا ہو یا مختلف مزاکراتی ادوار ہوں سب سے زیادہ قابل غور تقسیم کا ایجنڈا رہا ہے۔ اسی لئیے ریاست کے دونوں حصوں کو تقسیم کرنے کے لیئے ایک باڑ بھی لگائی گئی جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات پر مختلف علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں۔ بھارت امریکہ کے آشیر باد پر کسی بھی ایسے سرحدی علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جہاں سے وہ چین اور پاکستان کے درمیان حائل ہو جائے اور سی پیک کے لیئے دیوار کھڑی کر سکے۔ اس خطرے کے پیش نظر اب پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا چاہتا ہے، اور ہمیں محرومیوں کے ازالے کا لولی پاپ دیا جا رہا ھے ۔ اس سے پہلے ان محرومیوں کا کیا ازالہ کیا گیا یا کیا گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے بغیر اس کے حقوق نہیں دئیے جا سکتے۔ 1970 میں صوبہ بننے والا بلوچستان، کیا اسکی احساس محرومی ختم ہو گئی ہے؟

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گلگت بلتستان نہ تو تقسیم ہند کے کسی فارمولے کے تحت پاکستان کے زیرکنٹرول آیا اور نہ ہی پاکستانی افواج نے وہاں کسی جنگ کے نتیجے میں اس کو آزاد کروایا۔ بلکہ خود پاکستان نے عالمی فورم پر اس کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا اور پاکستان کے آئین کی شق 257  کے مطابق ریاست جموں و کشمیر پاکستان سے الحاق کرے گا تو باہمی تعلقات کار کا تعین شہریوں کی مرضی سے ہوگا۔ گلگت بلتستان کو اگر اس سارے عمل کو نظر انداز کرکے صوبہ بنایا جاتا ہے تو پاکستان کشمیر کے حوالے سے عالمی بیانیے، اپنے جاندار مؤقف ، اخلاقی برتری، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور آئین پاکستان سے انحراف اور سقوط کشمیر کے مترادف ہوگا۔ اس سے بڑھ کر بھارت کے پانچ اگست والے اقدامات کی حوصلہ افزائی ہوگی اور تقسیم کی راہ ہموار کرنے، ادھر ہم اور ادھر تم کے ایجنڈے کو تقویت دینا مقصود ہوگا۔ لاکھوں شہداء کے خون سے غداری کے وقت آزاد کشمیر کی قیادت سوائے جماعت اسلامی کے سوئی پڑی ہے۔ فاروق حیدر نے اپنے سیاسی مستقبل کے پیش نظر چپ سادھ لی۔ جن نوجوانوں نے آزادی کا علم اٹھانا تھا اور جدوجہد کا پیکر بننا تھا، وہ ڈی پی کمپیٹیشن اور سوشل میڈیا کے کسی گروپ کی ایڈمن شپ کی جنگ لڑ رہے۔ اگر یوں ہی خاموشی چھائی رہی تو مستقبل میں کشمیر کے پاکستان میں انضمام کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔