گلگت بلتستان کا دوسرا رُخ’

محمد شریف گل

28ہزار مربعہ میل پر مہیت خطہ گلگت بلتستان اپنی خوبصورتی اورد لکشی میں اپنی مثال آپ ہے فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں نیلگوں جھیلیں ،شیریں چشمے ،رنگارنگ پھولوں سے مزیًن گھاس کے وسیع قطعات اور یہاں کی دلفریب وادیاں آنے والے سیاحوں کو دعوت نظارہ پیش کر تی ہیں موسم بہار میں ملکی اور غیر ملکی سیاح کی ایک کثیر تعداد یہاں نظر آتی ہے جس سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کے سیاحت کو فروغ ملتی ہے یہاں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی(k2 )پاکستان کے لیے ماتھے کا جھومر ہے یہی وجہ ہے کہ آج برٹش بیک سوسائٹی نے پاکستان کو سب سے زیادہ خوبصورت مقامات رکھنے والا پہلا ملک قرار دیا دوسری جانب اگرگلگت بلتستان میں رہنے و لوں کی بات کی جائے تویہاں کے لوگ ہمیشہ سے ملک کی سلامتی اورتقدس کی خاطر پیش پیش رہے ہیں اس بات کی گواہی تاریخ سے لیکر اب تک کے لاکھوں شہداء ،غازیوں اور موجودہ ملکی سرحدوں کی حفاظت پہ معمور جوانوں سے ملتی ہے۔

یہ درجہ بالاخلاصہ گلگت بلتستان کاپہلارُخ ہے جس میں اسکی خوبصورتی اور اہمیت مختصر اًبیان ہوئی ہے خطہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے ساتھ سترسال سے جو اٹھ کھیل ہوتا آرہا ہے یہ ایک الگ موضوع گفتگو ہے لیکن اس حسین خطے کاایک اور اور رُخ بھی ہے جودنیا کی نظروں کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کی نظروں سے بھی اوجہل نظر آتا ہے گلگت بلتستان کی اس وقت آبادی تقریباً 30 لا کھ کے قریب جا پہنچی ہے یہ تیزی سے بڑتی ہوئی آبادی اس خطے کے گو ناگوں مسائل میں اضافے کا موجب بن رہی ہے لہذا ان حالات میں چند اہم مسائل کی نشاندہی کرنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں تعلیم حاصل کرناہرانسان کابنیادی حق ہے کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی کاانحصار تعلیم پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مملکت پاکستان میں تعلیم کے تمام تروسائل موجود ہے لیکن گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کی کمی یہاں کے طالب علموں کو درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج ہے ایسے میں ایک یونیورسٹی کے قائم شدہ محدود ڈپارٹمنٹس ان مسائل کی نفی نہیں کرسکتے بعدازاں نومینشن کے نام پرپاکستان کے دور درازاور غیرمعیار ی تعلیمی اداروں میں نومینیٹ کیا جانا ان طالب علموں کے زخموں پہ نمک چھکڑکانے کے مترادف ہے۔

جہاں تک گلگت بلتستان میں معاشی بحران کا سوال ہے تو اس کی دن بدن بڑتی ہوئی بیروزگاری معاشی بحران کا باعث بن رہی ہے یہاں سرکاری ادارہ روزگار کاواحد ز ریعہ سمجھاجاتاہے اور اس صورت میں 90 فیصدلوگوں کی توجہ بھی اسی ادارئے پہ مرکوزہوتی ہے روزگار میں فقدان کی ایک وجہ ان سرکاری اداروں کی آسامیوں میں غیر کشادگی اور صنعت گاہوں کا نہ ہونا نظرآتی ہے جس سے معاشرے میں پیچیدہ اورسنگین مسائل جنم لے رہے ہیںیہاں روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء راولپنڈی ، لاہواور کراچی سے تویل سفر کے بعد یہاں پہنچتی ہیں اسی سے ان شیاء کا ناقص اور غیر معیاری ہونا ثابت ہوتا ہے آج گلگت بلتستان میں Cancer,Hepatitis, Blood Pressure, Heart Attack جیسے پیچیدہ امراض سال بسال پرورش پا رہے ہیں اوران مذکورہ بیماریوں سے متاصرہ افرادکی خبریں روزسوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں اگرہسپتالوں کا رُخ کریں تو یہاں تعینات ڈاکٹرز ،پرامیڈیکل سٹاف اور ادویات کی شدیدکمی برقرار ہے تو دوسری طرف امراض کی صیح تشخیص کا نہ ہوناان لیبارٹریز کا غیر جدید ہوناہے پس ان مریضوں کومزید مشکلا ت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سالانہ تین سے چار ہزار مریض علاج کی غرض سے راولپنڈی اور دیگر شہروں کا رُخ کرتے ہیں مگر غربت کے باعث زیادہ تر لوگ انُ شہروں کامہنگا علاج تو دور کی بات وہاں تک کے آخراجات بھی نہیں اٹھا سکتے یوں تقریباً45 فیصدلوگ اپنا علاج تک نہیں کر پاتے سہولیات کی بات کی جائے تو پانی کے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود موسم سرما میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈینگ معمول بن چکا ہے۔ گھریلو اور کاروباری شیڈول کے مطابق بجلی کی عدم فراہمی سے معامولات زندگی بری طرح متاصر ہو رہے ہیں۔ کثیرالخطیر لاگت سے تعمیر سے کیئے گئے پاور ہاؤسسز تو اب بھی بند پڑ ئے ہیں اوربا قی پاور ہاؤسسز میں پانی کی کمی لوڈ شیڈنگ کی وجہ بتائی جاتی ہے سطح سمندر بلند واقع اس خطے کا موسم بھی اپنے اندر غیر فطری تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔

موسم گرماہو یا موسم سرما یہاں یکسرموسمی صورتحال تبدیل ہوتی رہتی ہے علاوہ ازیں سردیوں میں یہاں ٹمپریچر منفی بیس سنٹی گریڈ تک گر جاتاہے اورموسم کڑاکے کاہونے لگتاہے جبکہ اسکے بالائی علاقوں میں شدید برف باری کا سلسلہ شروع ہوجانے سے ان علاقوں کا زمینی راستہ منقطح ہوجاتا ہے ان گشیدہ حالات میں غذائی قلت موسمی بیماریاں جیسے پوشیدہ مسائل نمودارہوجاتے ہیں مسائل اور مشکلات سے پریشان یہاں کی مفلس عوام آخر کرے تو کیا کرے جائے توکہاں جائے بہر حال امید پردنیا قائم ہے اور اسی امیدسے ہی کڑوی دوا پینے پر مجبور ہے لہذاحکومت پاکستان کوچاہیے کہ گلگت بلتستان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام مسائل کابغورمشاہدہ کرے اوراس کے تدارک کے لیے مخلصانہ پیش رفت جلدازجلدعمل میں لائی جائے تاکہ اس خطے کا معاشی حسن ماندپڑ نے سے بچ سکے بصورت دیگریہ صورتحال خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔