گلگت بلتستان کے ترقیاتی کاموں میں فوج اور مغربی ملکوں کا حصہ

ڈاکٹر انعام حسین، بارسلونا

گلگت و بلتستان کی موجودہ ترقیاتی شکل بنانے میں سر آغا خان اور پاک فوج دونوں کی ایسی کاوشیں شامل ہیں جن کا ذکر گلگت و بلتستان کی تاریخ میں اگر نہ کیا جائے تو یہ جانب داری ہو گی۔ گلگت و بلتستان کا دارالحکومت گلگت شہر جغرافیائی طور پر ایک تاریخی چوراہے پر واقع ہے، جہاں ریشم، خشک میوہ جات اور مصالحہ جات کے تاجروں کی آمد و رفت رہا کرتی تھی۔

 سنہ 1947 کی تقسیم کے بعد یہ تجارت انتہائی ماند پڑ گئی، جس کی وجہ نئی سرحدوں کا وجود میں آنا تھا۔ اس آرٹیکل میں بعد از ہند و پاک تقسیم ترقیاتی کاموں کا مختصر جائزہ لیا جائے گا۔ گلگت کی جغرافیائی اہمیت ریشم کی تجارت کے دور سے وابستہ ہے۔ چین سے آنے والے قافلے گلگت کے شمال مشرق سے دریائے ہنزہ کے کنارے چلتے ہوئے آتے تھے اور پھر جنوبی راستے سے پنجاب و سرحد کی جانب چلے جاتے تھے۔ اسی طرح افغانستان سے قافلے بہ راستہ چترال درّہ شیندور سے ہوتے ہوئے گلگت آتے اور جنوب مشرق میں وادی استور کے راستے درّہ برزل عبور کر کے سری نگر تک چلے جاتے تھے۔ یہ گزرگاہیں گرمیوں میں آمد و رفت استمعال ہوتی تھیں لیکن سردیوں میں شیندور، برزل اور خجراب درّہ جات برف اور شدید سردی کی وجہ سے بند رہتے تھے۔ گلگت کی رونق اپنی جگہ لیکن سکردو جو بلتستان کا مرکز ہے، کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں تھا کیونکہ یہاں جتنی بھی وادیاں آ کر ملتی ہیں وہ بند گلی کے مانند ہیں اور کسی بڑے شہر کی جانب رسائی مہیا نہیں کرتی ہیں۔ تقسیمِ ہندکے بعد سے لے کر سرد جنگ کے آغاز تک گلگت و بلتستان، پاکستان کے لیے غیر اہم رہا۔ تجارتی شاہ راہ ختم ہونے کے سبب افلاس نے ڈیرے ڈال لیے۔ مقامی معشیت کا دار و مدار جنگلی پھلوں، گلہ بانی اور یک موسمی محدود فصل پر تھا۔ خوبانی کو سکھا کر سردیوں میں خوراک کے طور پر استمعال کرنا، زو سے ہل چلانا، زو کے دودھ اور مکھن کو استمعال کرنا، خوبانی اور بادام کے بیجوں کا تیل خوراک کے طور پر استمعال کرنا رواج بن گیا تھا۔ اس کل معاشی پیداوار سے نا تو سڑکیں بنائی جا سکتی تھیں اور نا ہی پل۔ اسکول اور ہسپتال کو تو بھول ہی جائیں۔ سرد جنگ میں پاکستان نے مغربی سرمایہ دارانہ بلاک میں شمولیت اختیار کی، جس کی وجہ سے مغرب کی خاص توجہ پاکستان کی طرف ہونی شروع ہو گئی۔ پاکستان کے ہم سایہ میں بھارت نے سوویت یونین کے بلاک میں بیٹھنا بہتر جانا، جس سے پاک و ہند کی موجودہ تفرت کو مزید تقویت ملی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں ملکوں میں فوج پر انتہائی بے دردی سے سرمایہ خرچ کیا گیا۔ فوج پر کی گئی عوام کے پیسے کی اس سرمایہ کاری کا ایک نتیجہ گلگت و بلتستان میں خوش حالی کا سبب بنا۔کہتے ہیں اگر کہیں ترقی لے جانی ہو تو وہاں سڑک لے جائیے، اگرچہ کہ انگریز کے دور میں گلگت شہر کے اندر ایک ائیرپورٹ کی تعمیر کی گئی تھی لیکن یہ گلگت کی ضروریات کے لیے نا کافی تھا۔ ایک جیپ ٹریک مانسہرہ سے کاغان کے راستے موجود تھا، جو درّہ بابوسر سے ہوتا ہوا گلگت تک رسائی دیتا تھا۔ یہ اصل میں پرانا سلک روٹ تھا۔ پاکستان کو چین نے ایک روڈ لنک بنانے کی دعوت دی، جس کو پاکستان نے منظور کر لیا۔ سن 1958 میں قراقرم ہائی وے کا آغاز ہوا اور سنہ 1966 میں یہ مکمل ہو گئی۔ درّہ بابوسر برف کی وجہ سے چونکہ بند رہتا تھا لہٰذا پاکستانی انجیرز نے ڈی ٹور کر کے ضلع کوہستان سے بہ راستہ بہ شام مانسہرہ سے ملا دیا۔ اس کام کو چین کی پیپلز آرمی نے اور پاکستان کی جانب سے پاکستان آرمی نے پایہء تکمیل تک پہنچایا۔ اس شاہ راہ کی تعمیر میں ساڑھے تین جانیں فی کلومیٹر تلف ہوئیں اور اگر ناموں کا تجزیہ کریں تو گلگت و بلتستان کی مقامی آبادی کی شمولیت شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے۔ چینی فوج اور پاک فوج کے جوان زیادہ تر کام آئے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے فوری بعد جو تعمیراتی مشینری چین سے ملی تھی اور جو پاکستان نے امریکا سے امداد میں حاصل کی تھی اور پاک فوج کا پہاڑوں میں شاہراہ بنانے کا تجربہ سب وسائل بروئے کار لا کر پاک فوج نے گلگت سکردو روڈ بنا ڈالی، جو صرف ایک میول ٹریک ہوا کرتا تھا۔ سڑک آ جانے سے گلگت اور سکردو کے لوگوں کو نقل حمل کی سہولت مل گئی۔ ساتھ میں سر آغا خان نے اپنا مغربی ملکوں میں اثر و رسوخ استمعال کر کے وہاں سے فنڈنگ جاصل کر لی اور AKRSP آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا۔ بعد ازاں AKRSP کو WAO اور UNDP کی طرف سے بھی فنڈنگ ملنا شروع ہو گئی۔ گلگت و بلتستان میں تقسیم کے بعد ترقی کا آغاز 70 کی دہائی میں دوبارہ شروع ہوا، جہاں فوج اور AKRSP مل کر ترقیاتی کام کر رہے تھے۔ ہسپتال فوج نے دیے، سڑکیں فوج نے بنائیں، بیکری، مرغی خانے، سبزی و فروٹ شاپس فوج نے بنا کر دیں۔ ماڈرن طرز تعمیر کے شاپنگ ایریا فوج نے بنا کر دیے، جہاں آج بھی مقامی آبادی کاروبار کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر NLI مارکیٹ گلگت و بلتستان کی پہلی باقاعدہ طور پر ماڈرن شاپنگ کمپلیکس تھی، جس کو گلگت میں کبھی کسی نے بنانے کا سوچا تک نہیں تھا۔ یوں تو پیسے کی فراوانی تھی، گلگت میں کیوں کہ سڑک بن جانے سے مغربی ٹورسٹ آنا شروع ہو گئے تھے، جو زر مبادلہ دے کر جاتے تھے۔ اسی طرح آغا خان فنڈ نے مقامی لوگوں کو اسکول دیے، چھوٹے کاروبار کرنے کی تربیت دی، سوشل ویلفیئر کی بنیادی سہولیات دیں اور زراعت کی جدید تربیت دی۔

 یہ بات درست ہے کہ آج جب ہم دیکھتے ہیں تو گلگت سکردو اور جگلوٹ شہروں میں قیمتی اراضی فوج اور آغا خان کے پاس ہیں لیکن اس کی ایک ترقیاتی تاریخ بھی ہے، جس کو وہاں کے مقامی نوجوان یکسر نظر انداز کر رہے ہیں۔ گوگل میں اگر آپ گلگت کا نقشہ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ وہاں کا مشرقی علاقہ فوج کے پاس ہے، جس کو گلگت چھاؤنی کہا جاتا ہے۔ ستّر کی دہائی میں وہاں کچھ بھی نہیں تھا، سوائے ریت کے ٹیلوں کے۔ فوج نے وہ زمین مقامی لوگوں سے قیمتاً حاصل کی، بلڈوزر چلائے، سڑکیں بنائیں، سیور بنایا اور مکمل کالونائز کیا۔ اس ترقیاتی کاموں پر خرچہ فوج نے کیا یعنی میدانی پاکستان کے ٹیکس دہندہ کا پیسہ لگا جبکہ گلگت بلتستان جو پہاڑی پاکستان تھا، وہاں راشن تک مقامی آبادی کو سبسڈی کے تحت ملتا تھا یعنی میدانی پاکستانی ٹیکس کا پیسہ جو فوج کے ذریعے ان تک پہنچتا تھا۔ آج کے دور میں مقامی آبادی اپنے آپ کو فوج سے دور محسوس شاید اس لیے کرتی ہے کہ مقامی گلگت و بلتستان کا سرمایہ دار طبقہ اسلام آباد اور کراچی میں بڑے بڑے پلازہ تعمیر کر رہا ہے لیکن سرمایہ کاری اپنے علاقے میں کرنے سے گریزاں ہے۔ ہنزہ ، شمشال اور نلتر کو بھی اسی انداز میں ترقی دی سکتی ہے، جس طرح شروع میں فوج نے گلگت اور سکردو کو ترقی دی۔ صاحب فوج نے اگر ترقیات کی ہیں تو کیوں نہ کرے؟ یہ فوج ہماری ہی تو ہے۔ ہم اپنے اندر یہ صلاحیت کیوں پیدا کرنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ترقیات اپنے علاقے میں خود لے کر جائیں؟ میرا یقین ہے جب بھی سول حکومت جمہوری انداز میں عوام کے لیے کھڑی ہوتی ہے، تو فوج اس کے تابع ہو جاتی ہے۔ ادارے مضبوط کریں، اپنے سول سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کریں تاکہ سرمایہ کاری ہو، سول میں کرپشن کو روکیں اور دیکھیں پھر فوج واپس کیوں نہیں جائے گی، جہاں اس کو ہونا چاہئے۔ ترکی کی مثال سامنے ہے۔ جن لوگوں کو جمہوریت نے خوش حالی دی ہے لوگوں نے جہوریت کو مضبوط کیا ہے لیکن بڑی معزرت کے ساتھ، گلگت اور بلتستان میں صحت، تعلیم، خوراک، کاروبار سب فوج اور AKRSP نے مہیا کیا ہے جب کہ مقامی آبادی کا زور کراچی اور اسلام آباد کی جانب ہجرت پر رہا ہے۔ اسی لیے آج کا نوجوان ہیجان کا شکار ہے۔