ہاتھوں لگائی گرہیں

وقاص احمد

سیانے کہتے تھے کہ ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ بات ایسے بھی کہی جاتی ہے کہ آدمی اپنے ہی بولے گئے الفاظ کا اسیر ہوجاتا ہے۔ جب یہ باتیں کسی سیانے کے کسی تناظر میں کہی ہو گی تو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ کسی دور میں پاکستان پر ایک ایسی حکومت مسلط کی جائے گی جو اس محاورے کی چلتی پھرتی عبرت ناک مثال ہو گی۔

ایک وقت تھا جب یہ پارٹی اپوزیشن میں بیٹھتی تھی اور شاید ان کو نا توقع تھی نا امید کہ یہ کبھی اقتدار میں آئیں گے سو انہوں نے باتوں، دعوؤں، نعروں، اصولی موقف اور توقعات کا اتنا انبار اپنے اوپر لاد لیا کہ اب کوئی دن جاتا ہے کہ انہی باتوں، انہی دعوؤں، انہی نعروں کے بوجھ تلے اس نوزائیدہ حکومت کی کوئی نا کوئی ہڈی چٹخ جاتی ہے۔

مجھے یاد ہیں پچھلی حکومت کے وہ شروع کے دن جب اسحاق ڈار ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپوزیشن پارٹیوں کے کہتا تھا کہ مہربانی فرما کر معیشت کو سیاست کا اسیر مت بنائیں کہ معیشت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے مگر پھر ہم نے دھرنے، کنٹینر، لاک ڈاؤن، جلاؤ، گھیراؤ، آگ لگاؤ، سول نافرمانی، ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجنے کی اپیل اور سرعام بجلی کے بلوں کو جلانے کے کارنامے دیکھے۔ چین کے صدر کو اپنا دورہ مہینوں کے حساب سے ملتوی کرنا پڑا کہ شہنشاہ پاکستان، عزت مآب عمران صاحب دارلحکومت کے عین درمیان اپنا کنسرٹ لگا کر بیٹھے تھے۔ دوسری درجنوں مثالیں اپنی جگہ مگر میں بذات خود عینی شاہد ہوں ایک فارن انوسٹر کے وفد کا جو پاکستان میں کئی سو ملین ڈالر کی لاگت سے ایک انڈسٹری لگانے کے حتمی مذاکرات کرنے اسلام آباد آئے ہوئے تھے، یہاں تک کہ پراجکٹ کی ٹیم کے کچھ چیدہ چیدہ لوگوں کے انٹرویوز تک کر چکے تھے جب وہ اس طوفان بدتمیزی میں پھنسے۔ تین چار دن بعد جب جان خلاصی ہوئی تو پہلی فلائٹ پر واپس گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔

مجھے وہ دن یاد ہے جب وزارت خزانہ نے ٹیکس ریفارمز کا آغاز کیا اور نان ٹیکس فائلرز پر کچھ اضافی بنک فیس کا اطلاق کیا۔ یہ ن لیگ کا اپنی ہی سپورٹ بیس تاجر برادری پر وار تھا اور لازمی تھا کہ ساری سیاسی جماعتیں اس مستحسن اقدام پر ن لیگ کو بھر پور سپورٹ کرتیں لیکن پھر ہم نے لاہور کی سڑکوں پر تحریک انصاف کو تاجروں کے ساتھ مل کر مظاہرے کرتے دیکھا۔

مجھے یاد ہیں وہ دن جب تھڑے پر بیٹھے ایک ان پڑھ انصافی اور ملک کے منصف اعلیٰ تک “ہر پاکستانی اتنے پیسوں کا مقروض ہو گیا ہے” جیسے جملوں پر آدھ آدھ گھنٹا بین ڈالا کرتے تھے۔ قرضے کی وجوہات اور میرٹس، ڈی میرٹس پر بحث کے بنا ہی اس موضوع پر گھنٹوں کے حساب سے پیراشوٹر “سینئر تجزیہ نگار” عام عوام کے دماغ چاٹتے تھے.

مجھے یاد ہیں وہ دن جب شہباز شریف کی ایک انتخابی بڑھک (6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم) پر تحریک انصاف ٹھٹھے اڑایا کرتی تھی۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب پی آئی اے اور سٹیل مل کی نجکاری کے معاملات پر یہی جماعت معاملات کو خونریزی تک بھی لے گئی تھی۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب شدید بارشوں کے بعد سڑکوں پر چند گھنٹے کھڑا رہنے والا پانی اس جماعت کے سوشل میڈیائی سپورٹران کا مشترکہ سٹیٹس ہوتا تھا۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب انڈیا کے ساتھ مزاکرات کی ہر فرنٹ چینل/ بیک ڈور چینل کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ پارٹی ایمپائرز کی انگلی پر ناچتی تھی۔ (تازہ ترین خبر کے مطابق اس وقت ہمارے چیف ایمپائر خود مذاکرات کے سندیسے بھیج رہے ہیں اور ادھر سے انکار ہے۔ عبرت؟؟)

مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب کشمیر اور کلبھوشن کا ذکر نا کرنے کے الزام میں تیس تیس میڈیا چینل اور اس سیاسی گروہ کے درجن بھر نمائیندے اپنے حلق پھاڑ پھاڑ کر ادھ موئے ہوئے پھرتے تھے۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب ہمارے موجودہ وزیر خزانہ ہاتھ میں پرچے لہرا لہرا کر پٹرول کی قیمت پر لگے ٹیکسز کو ظالمانہ لوٹ مار اور حکمرانوں کی عیش پرستی کہتے نہیں تھکتے تھے۔

مجھے یاد ہے جب مہنگائی کی کوئی لہر اس پارٹی کے لیے خوشیوں کے شادیانے بجاتی تھی۔

مجھے یاد ہیں وہ بات بات کے لاک ڈاؤن، مجھے یاد ہیں وہ بے طرح کی بدمعاشیاں۔ مجھے یاد ہیں وہ دن جب اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کسی معاملے پر اپنی رائے دینے والے “جاہل پٹواری” کو اندھا غلام اور نالائق و کرپٹ حکمرانوں کا دفاعی ترجمان کہا جاتا تھا۔

اور

مجھے یاد ہیں وہ دن بھی۔۔۔جب پی ٹی آئی نے تمام اخلاقی، قانونی، آئینی و شرعی حدود کراس کر کے پاکستان میں ختم نبوت جیسے نازک مسئلے پر گندی سیاست کھیلی۔ انہوں نے شدت پسند جہلا کی طرح کفر کے فتوے بانٹے، انہوں نے اپنی الیکشن کمپینز اس موضوع پر چلائیں، انہوں نے حکومتی مسلمان اراکین اسمبلیوں کو جعلی پیروں کے سامنے کلمے پڑھ کر اپنے ایمان کی تجدید کروانے پر مجبور کیا۔ انہوں نے انتہا پسندی کو اتنا پھیلایا کہ حکومتی اراکین پر قاتلانہ حملے ہو گئے. ان معاملات میں جہاں پی ٹی آئی کی قیادت دس قدم تھی وہیں ان کے اندھے گونگے بہرے عقیدت مند 30 قدم پر نظر آتے تھے۔

اور آج۔۔۔۔۔

جب میں ان ننھے منے “انقلابیوں” کو کبھی یہ ترلے مارتے دیکھتا ہوں کہ حکومت کو ٹائم تو دو تو کوئی نا کوئی پٹواری ان کو مراد سعید کی دو سو ارب ڈالر والی تقریر تھما دیتا ہے۔

جب ان “ننھے معیشت دانوں” کو اسد عمر کا آئی ایم ایف جانے والا بیان پڑھایا جاتا ہے تو ان کی تاویلیں دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔

جب ان نجکاری کے دشمنوں کو وزارت خزانہ کا یہ بیان دکھایا جاتا ہے کہ سٹیل مل اور پی آئی اے کو چلانے کی کوشش کریں گے ورنہ بیچ دیں گے تو ان کی غیر ہوتی حالت دیکھنے لائق ہوتی ہے۔ جب پٹرول کی قیمت پر 100 فیصد ٹیکس کے نعرے سن کر بھڑکے ہوئے انصافیوں کو 2 روپے کے ریلیف کا لالی پاپ دیا جاتا ہے تو ان کے دل پر گزرنے والی ان کے چہروں سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ جب بجلی مہنگی ہونے کے باوجود ملنا ناپید ہوتی جارہی ہے تو تبدیلی کے علمبرداروں کی توجیہات سننے کے لائق ہوتی ہیں۔ جب شاہ محمود قریشی انڈیا کے ساتھ مذاکرات اور امن کی باتیں کرتے ہیں تو غدار و جاہل پٹواری گزرتے گزرتے آل یوتھ کو کہنیاں مار کر قہقہے لگاتے جاتے ہیں۔

غضب تو یہ ہے کہ ایک مہینے سے ن لیگی پٹواری کلبھوشن کلبھوشن کے نعرے لگا رہے ہیں اور آل یوتھ کے ہاں ایسی خاموشی ہے جیسی کوئی مرگ ہو گئی ہو۔ جب وزیراعظم کی تقریروں میں گاڑیاں بیچنے سے درخت لگانے تک ہر شئے ملے لیکن پاکستان کے اصل مسئلے، خارجہ امور پر پالیسی بیان ناپید ہو تو غدار اور دشمن پٹواری ان ننھے منے انصافیوں کو آنکھیں مار مار کر تنگ کرتے ہیں۔ جب نئی صاف، پاکیزہ، زم زم کی دھلی قیادت کے دعوؤں کے بعد علیم خان جیسے وزیر بلدیات بن جاتے ہیں تو انصافیہ سوشل میڈیا سیل کے دشنام طراز مجاہدین کی صفوں میں دو دو دن تک خاموشی سی چھائی رہتی ہے۔ جب اہل، لائق اور تجربہ کار ٹیم کے دعوؤں کے بعد کوئی عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب بن جاتا ہے تو تبدیلی کے شاپر میں بڑے بڑے سوراخ ہو جاتے ہیں۔ خاں صاحب، کن کن باتوں کا دفاع کر پائیں گے یہ ننھے منے انقلابیے؟؟

ان کے طوفان بدتمیزی کے بیک گراؤنڈ میوزک نے چند آقاؤں کی سرپرستی کی مدد سے آپ کو اس عہدے تک پہنچا تو دیا لیکن کسی غلط فہمی میں نا رہیے گا کہ یہ گالم گلوچ آپ کو 5 سال اس عہدے پر براجمان رہنے میں بھی مدد دے گی۔ آپ چاہے کتنے ہی خلوص نیت اور حب الوطنی کے جذبات سے ملغوب ہو کر کسی ذہین دماغ عاطف میاں کو اپنی مشیر بنانے کی کوشش کریں مگر آپ اور آپ کے رفقاء کی اس موضوع پر تقاریر، اس موضوع پر آپ کی گندی سیاست بازی، اس موضوع پر چلی آپ کی الیکشن کمپینز اور اس موضوع پر مچائے آپ کے فساد ہی آپ کے آڑے آ جائیں گے۔

کل کسی انصافیے نے بہت دردمندی سے کہا کہ کیا بنے گا اس جاہل قوم کا جو لوگوں کی قابلیت کو ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر جانچتی ہے تو میرا جواب یہی تھا کہ حضور اگر آپ کا ابھی بھی یہی خیال ہے کہ مسئلہ عاطف تھا تو آپ کی عقل کو سو سو سلام۔ مسئلہ عاطف نہیں تھا مسئلہ عمران نیازی تھا۔ اگر آپ نے اس مسئلے کا ادراک اس وقت کر لیا ہوتا جب آپ ایک جھوٹ کی بنیاد پر اس معاملے پر سیاست چمکا رہے تھے تو آج یہ بندہ پاکستان کی حکومت کے لیے کام کر رہا ہوتا۔ یہ جن آپ نے اس بوتل سے نکالے تھے اور اب یہ آپ ہی کی جان کے درپے ہیں۔ یہ تیر آپ نے ہی اپنی مخالفین پر چلائے تھے جو اب گھوم کر واپس آپ کی طرف آرہے ہیں۔ حضور یہ ہاتھوں کی لگائی گرہیں ہیں اور ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ کچھ لوگوں نے پاکستان میں حکومت کرنا اتنا مشکل کر دیا ہے کہ اب لگتا ہے اگلے الیکشنز میں مقابلہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا ہوا کرے گا۔

جو چاہو بولو، جو دعویٰ من میں آئے کر ڈالو، کسی کو گالی دو، کسی کو دھمکی لگاؤ، دل چاہے تو ایک ہی بیان میں انڈیا اور امریکہ کو تہس نہس کر ڈالو اور اگر فیاضی کا موڈ ہو تو وعدہ کر ڈالو کہ پٹرول سعودی عرب والے ریٹ پر ملا کرے گا۔ چاہے تو 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کر لو، چاہے تو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ۔ اپوزیشن کرنا بہت آسان کام ہے خاں صاحب اور مسئلہ یہ ہے کہ آپ یہ سب کچھ کہہ چکے ہیں اور اب آپ کی حکومت انہی باتوں کی اسیر رہے گی۔