ہزارہ!

 اول میر یوسف زئی

ہم کون ہیں؟
تمہیں نہیں پتہ! حیرت ہے!
ہم جو ساری زندگی غربت، بھوک اور افلاس کے مارے دو وقت کی روٹی کے لیئے، بچوں کے پیٹ کی خاطر، مشقت سے اٹے کام کا ایندھن ہیں،

ہم سکھ کے دو لمحوں کے لیئے ترسنے والے، پیٹ کا دوزخ بھرنے کی خاطر، دوزخ کی زندگی جینے والے،
تمہیں نہیں پتہ! حیرت ہے!
ہم خدا کی نعمتوں سے بھری دنیا، اور ”پاک سرزمین“ پر امید کے دیئے جلائے، امن کی آس لیئے، بچوں کے لیئے دو وقت کی روٹی کمانے کی خاطر، جب اپنے گھروں سے نکلتے ہیں، تو طاقت کے نشے میں دھت، مال کی محبت میں مبتلا فرعون، ہماری آس اور امید کا روشن دیا خاک میں ملا دیتے ہیں،


 تمہیں نہیں پتہ! حیرت ہے!
ہمیں زبردستی شہادت کا تاج پہنایا جاتا ہے، اور ہم دکھ، درد اور بے بسی میں،ماتم کرتے رہ جاتے ہیں، ہم ”قومی مفاد“ کی بھینٹ چڑھا دیئے جاتے ہیں۔


تمہیں نہیں پتہ! حیرت ہے!


ہم تو بس اپنے پیاروں کی آہوں اور سسکیوں میں آنسوں بن کے تب تک زندہ رہتے ہیں، جب تک وہ خود ”قومی مفاد“ میں قربان نا کر دیئے جائیں،


تمہیں نہیں پتہ! حیرت ہے!


ہم اپنے پیشروؤں کی طرح صبح کے اخبار کی سرخی بن جاتے ہیں!