ہم سب گدھے ہیں

وقاص احمد

چند روز گزرے ہیں کہ پاکستان کے ایک چوٹی کے لیڈر نے اپنے روایتی جوش خطابت میں فرمایا کہ وہ تمام لوگ گدھے ہیں، بیوقوف ہیں اور جاہل ہیں (وغیرہ وغیرہ) جو ان کے سیاسی مخالف کے حمایتی ہیں۔

قبل اس بیان کے یہ صاحب پارلیمنٹ کو لعنتی، اس میں بیٹھنے والوں کو چور ڈاکو اور یہاں تک کہ چند قومیتوں کے نام لیکر بھی کافی ہرزہ سرائی کر چکے ہیں۔ قطع نظر اس بات کے جن ان صاحب کا معیار زبان و بیان (سمیت ان کے جملہ پرستاروں کے) اس قابل نہیں کہ اسے کسی سنجیدہ محفل میں موضوع بحث بنایا جائے، میں اپنے آپ کو ان کی اس رائے سے متفق پاتا ہوں۔

ہم سب گدھے ہیں کہ ہمیں ہر چند سال بعد ایک پرانی فلم، پرانے ٹائٹل (بنام چور/ غدار اور احتساب)، پرانے ڈائیلاگز، پرانے گانوں لیکن نئے کرداروں کے ساتھ دکھائی جاتی ہے اور ہم اس فلم کو کھڑکی توڑ رش مہیا کرتے ہیں.

ہم گدھے ہیں کہ ہم اپنے ملک کی 70 سالہ تاریخ کے دو حصوں (35 سال جمہوریت، 35 سال آمریت) کا موازنہ کرکے آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہم نے آمریت کا انتخاب کرنا ہے یا جمہوریت کا۔

ہم گدھے ہیں کہ جس دنیا کے 90-95٪ حصے میں جمہوریت ہی سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے اس میں آمریت کی گنجائش ڈھونڈتے ہیں۔

ہم گدھے ہیں کہ ہم نے یہ تو رٹ لیا کہ روٹی کپڑا تعلیم اور صحت ہماری بنیادی ضرورتیں ہیں لیکن یہ نہیں سمجھ پائے کہ اس روٹی کپڑا تعلیم اور صحت کے پیسے معدودے کے چند فیصد ترقیاتی منصوبوں پر “ضائع” ہوئے یا پھر 50٪ کے دفاعی بجٹ پر۔
ہم گدھے ہیں کہ ہم ہر دن یہ تصور کرتے ہیں کہ “دشمنان دین و ملت” ہمیں تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں جبکہ وہ دشمنان دور بیٹھے ہنس رہے ہیں کہ جو لوگ خود اپنے آپ کو برباد کرنے پر تلے ہیں انہیں ہماری کیا حاجت؟

ہم گدھے ہیں کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ کشمیر کی آزادی میں بھارتی فوج رکاوٹ ہے یا پاکستانی؟؟ یا پھر دونوں؟

ہم گدھے ہیں کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان سے اس لیے نہیں بھاگتے کہ نوازشریف کے بچوں کے لندن میں فلیٹس ہیں بلکہ پالیسیوں اور حکومتوں کے عدم تسلسل سے بھاگتے ہیں۔

ہم گدھے ہیں کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسیاں بنانے والے وہی رہے جو ہمیشہ سے ہیں تو پاکستان کے ساتھ وہی ہوتا رہے گا جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔

سرکار، مان لیجئے۔ پاکستان کا مسئلہ تعلیم اور صحت کا انصاف نہیں بلکہ “انصاف کا انصاف” ہے۔
مان لیجیئے کا آپ کی تعلیم اور پینے کے صاف پانی کا پیسہ کسی موٹروے پر ضائع نہیں ہوا بلکہ کسی میزائیل کے ساتھ اڑا ہے۔

سمجھ لیجئے کہ یہ سڑکیں، میٹرو اور دیگر منصوبے صرف دکھاوے نہیں بلکہ ان سے لاکھوں پاکستانیوں کا روزگار جڑا ہے۔

مان لیجیئے کہ ہمیں قرضے لینے کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ ہمارے “دفاع” کا بجٹ ہماری اوقات سے زیادہ ہے۔

تسلیم کر لیں کہ کرپشن آپ کے ملک کا بنیادی مسئلہ نہیں بلکہ دہشتگردی ہے۔

مان لیں کہ دہشتگردی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ہمارے اپنے اسٹریٹیجک مفادات اس کے ساتھ جڑے ہیں۔

مان لیں کہ عالمی دنیا آپ کو ناقابلِ اعتبار، ناقابلِ اعتماد، جھوٹی اور فراڈیہ قوم زرداری کی شوگر ملوں، نواز کے فلیٹوں، عمران کی چندہ خوریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی دوغلی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے کہتی ہے۔

مانیے اس بات کو کہ پاکستان کے قرضے صرف اس لیے نہیں بڑھے کہ ہماری معاشی پالیسیاں غلط ہیں، ہمارے قرضے اس لیے بڑھے کہ ہم سب ٹیکس چور ہیں اور گورنمنٹ کو یہ ملک بھی چلانا ہے۔ یہ قرضے اس لیے بڑھے کہ آپ دہشتگردی کے خلاف ایک ایسی عجیب و غریب مہنگی ترین جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ہم دو دہشتگرد مارتے ہیں اور دو پیدا کرتے ہیں، دو کو پکڑ لیتے ہیں اور دو کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔

جانیے اس حقیقت کو کہ آپ کو پڑوسی ملک بھارت آپ سے کئی گنا زیادہ کرپشن کے باوجود آپ سے کئی گنا طاقتور اور عالمی برادری میں قابلِ اعتبار اور محترم کیوں ہے؟

مان لیجیئے اس بات کو کہ دنیا کو ہمیں تباہ کرنے میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی عرق ریزی سے یہ کام ہم خود کر رہے ہیں۔

بخدا میں یہ دل کی بھڑاس آج ناں نکالتا اگر میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی ترجیحات، توجیہات اور تجزیوں سے دل برداشتہ نا ہوتا۔ تو اس دل کی بھڑاس کا خلاصہ سمجھ لیجیے،سخت بات ہے اسلئے سخت الفاظ میں ہی ہوگی، اس کے لیے معذرت۔

پاکستان میں کوئی گدھا آپ کو مفت تعلیم، مفت صحت اور مفت مکان کی کہانیاں سناتا ہے تو اس کے کان کے نیچے دو دھریے۔ پاکستان کی معاشی حالت ملک میں بھک منگوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اس بندے کی آواز پر کان دھریے جو آپ کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بات کرے۔ روزگار پیسے دیتا ہے اور پیسے سے تعلیم، صحت اور مکان سب مل جاتے ہیں۔

انفراسٹرکچر، صنعت اور انرجی وہ شعبے ہیں جن پر کام کرنے والے لوگ آپ کو چاہیں۔ بجلی سے بزنس چلتا ہے اور بزنس سے لاکھوں کروڑوں خاندانوں کا چولہا۔ انفراسٹرکچر ملک کے لیے تو ضروری ہے ہی لیکن اس حقیقت پر بھی نظر رہے کہ بلواسطہ اور بلاواسطہ ان منصوبوں سے کتنے لوگوں کو وہ پیسے ملتے ہیں جس سے وہ اپنے بچوں کو پڑھاتے اور کھلاتے ہیں، اپنے بچوں کے لیے چھت کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ جو تھوک کے حساب سے بے روزگار انجینئیر اور دیگر گریجویٹس ہم ہر سال پیدا کر رہے ہیں وہ انہی فیکڑیوں انہی منصوبوں انہی موٹرویز کے منصوبوں پر کام کر پائیں گے ورنہ بے روزگار ہی رہیں گے۔

گورنمنٹ کی ترجیحات پر تبصرہ آرائی سے پہلے اپنی معاشی اوقات کو نظر میں رکھیں۔ جس ملک کے 100 میں سے 50 روپے گولہ بارود پر خرچ ہوتے ہوں اور وہاں کی عوام اس سے مطمئن بھی ہو تو اس عوام کو اپنی تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات کا موازنہ شمالی کوریا یا کسی افریقی متحارب ممالک سے کرنا چاہیے، ناں کہ برطانیہ اور امریکہ سے۔

بچیے ان لوگوں سے جو آپ کو چٹکی بجاتے تمام مسائل حل کرنے کی نوید دیتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ الیکشن کے نعرے ہیں، آپ ہی تھوڑا سمجھداری کا ثبوت دیں۔ پاکستان میں بہت سے شعبوں میں بہت سا کام ہونے والا ہے، یہ کام رفتہ رفتہ ہوگا۔ ہماری پیش رفت سست سہی مگر پیش رفت سے تو انکار نہیں ناں؟ “انسانوں پر پیسہ لگانے” کا مطلب اس حکایت سے سمجھیں جس میں بندے کو مچھلی پکڑنے کا فن سکھانے پر اصرار ہے ناں کہ گھر بٹھا کر مچھلی کھلانے پر۔

اس ملک میں عوام کی حاکمیت جب قائم ہوگی تو نمائندے وہی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بنائیں گے جو عوام چاہتے ہیں۔ تب ہم اس دہشتگردی کے چنگل سے آزاد ہوں گے۔ تب ہی ہمارے پاسپورٹ کو باہر عزت اور وقار ملے گا۔ تب ہی ہماری کرنسی مضبوط ہوگی۔ تب ہی اس ملک میں سیاحت سے اربوں ڈالر کی کمائیاں ہوں گی۔ تب ہی سرمایہ کار اپنے اربوں ڈالرز کا سرمایہ اس ملک میں لاتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھیں گے۔ تب ہی ہماری ایکسپورٹس بڑھیں گی۔ تب ہی ہم فخر سے میڈ ان پاکستان کے لوگو والی چیزیں بیچیں گے۔ تبھی روزگار اور خوش حالی آئے گی۔تب ہی عوام کا معیار زندگی اتنا بلند ہوگا کہ عالمی معیار کی بنیادی سہولیات سے محظوظ ہوں گے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے، بالکل ممکن ہے اور یہ سب آپ کے ایک انکار پر منحصر ہے۔ عوام کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو انکار۔

اور اگر ہم اسی 70 سالہ ڈگر پر خوشی سے قائم رہنا چاہتے ہیں تو پھر مان لینے میں کیا حرج ہے کہ واقعی ہم سب گدھے ہیں۔