کشمیر، جنت سے قید خانے تک
بابا چار دن ہو گئے ٹی وی کیوں نہیں چل رہا، آپ کو کوئی ٹیلی فون بھی نہیں آ رہا اور دادی اماں کا ریڈیو بھی خاموش ہے مگر گلی میں بوٹوں کا بہت شور سنائی دے رہا ہے۔
“سوپور کے گاؤں میں اپنے مکان میں محصور سید علی گیلانی سے ان کا چھ سالہ معصوم پوتا سوال پر سوال پوچھے جا رہا ہے” بابا چار دن سے ہم لوگ باہر نہیں جا سکے دادا کو خاموش پا کر پوتے نے ایک اور سوال کیا، کیا ہم ہمیشہ یہاں قید رہیں گے، کیا کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا؟
بزرگ سید علی گیلانی حسرت اور محبت سے دیوار پر لگے پاکستان کے پرچم کو دیکھتے ہوے بولے۔
یٹا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں، پاکستانی قوم ہم سے بہت محبت کرتی ہے، پوری قوم آپس کے سارے اختلافات بھول کر ہماری مدد کو چل نکلی ہو گی، ہمارے بھائی بس پہنچنے والے ہوں گے۔
پوتا پھر پوچھتا ہے، بابا کیا پاکستان بہت دور ہے؟ آج تو چار دن گزر گئے لیکن کوئی نہیں آیا، کیا پتہ انہیں خبر ہی نہ ہو کہ ہمارے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ بابا کہتے ہیں بیٹا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں پتہ نہ چلا ہو، جب ہم اپنے ہر جوان کی لاش سبز ہلالی پرچم میں دفن کرتے ہیں تو کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں ہم پر ہوے ظلم کا علم نہ ہو۔
بابا، مگر کیا پتہ انڈیا کی فوج نے انہیں بارڈر پر باڑ لگا کر روک لیا ہو، انڈیا کے پاس تو بڑے ہتھیار ہیں کیا پاکستان کے پاس بھی اسلحہ ہے؟ ننھا بچہ اگلا سوال پوچھتا ہے۔ سید علی گیلانی کہتے ہیں بیٹا آپ فکر نہ کرو، پاکستان کی قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ایٹم بم بھی بنا لیا ہے اور وہ خود بے شک بھوکے سویئں مگر اپنی فوج کو ہر سہولت مہیا کرتے ہیں، اپنی آمدن کا زیادہ حصہ جدید اسلحہ بنانے اور خریدنے پر لگاتے ہیں تاکہ دشمن کو سبق سکھا سکھیں اور انہوں نے کئی بار دشمن کو منہ توڑ جواب بھی دیا ہے۔ آپ کو یاد نہیں پچھلے دنوں انہوں نے انڈیا کا جہاز گرا کر پائلٹ ابھی نندن کو پکڑ لیا تھا، پوتا کھلکھلا کہ ہنستا ہے اور اس کی آنکھوں میں امید کی چمک گہری ہو جاتی ہے مگر پھر بے بسی سے مچل کر سوال کرتا ہے، بابا تو پھر وہ اب تک کیوں نہیں پہنچ سکے، مجھے لگتا ہے کسی بڑے نے انہیں ہمیں بچانے سے منع کر دیا ہو گا۔
نہیں بیٹا قربانی اور محبت کے سودے نہیں ہوتے، دنیا جتنا بھی زور لگا لے وہ ہمیں اس حال میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے، کسی کے کہنے پر وہ کبھی نہیں رکیں گے، وہ بس آتے ہوں گے، “فکرمند بزرگ پھر پوتے کو تسلی دیتا ہے”
مگر پوتے کے سوال ختم نہیں ہو رہے وہ پھر پوچھتا ہے بابا میں نے ٹی وی میں دیکھا تھا کہ ان کے بڑے آپس میں جھگڑا کر رہے تھے، کیا پتہ وہ اپنے جھگڑے میں مصروف ہوں اور بھول گئے ہوں کہ کوئی ان کی مدد کا انتظار کر رہا ہے۔
بوڑے گیلانی کے چہرے پر پریشانی کا سایہ لہراتا ہے اور اس کی جھریاں مزید گہری ہو جاتی ہیں اور وہ کہتا ہے بیٹا ان کے سیاستدانوں کے آپس میں بہت سے اختلافات ہیں لیکن کشمیر پر وہ سارے ایک ہو جاتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ جونہی انہیں ہماری حالت کا پتہ چلا ہو گا تو وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سب کو اکٹھا کر لیا ہو گا۔ پوتا پوچھتا ہے کیا وہ واقعی ہمارے لئے اپنے اختلافات بھول گئے ہوں گے؟
بابا جواب دیتے ہیں، ہاں بیٹا میں چشم تصور سے دیکھ سکتا ہوں کہ بہت ساری کرسیاں ہیں، سامنے عمران خان اور فوج کے سپہ سالار بیٹھے ہیں، ان کے ساتھ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن ہیں، بایئں طرف نوازشریف کو بھی جیل سے بلا کر مشورے کیلئے ساتھ بٹھا لیا ہے، ان کے ساتھ مریم نواز اور شہباز شریف بھی ہیں، اسفندیارولی، بلاول بھٹو اور محمود اچکزئی بھی نظر آ رہے ہیں، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق بھی وہاں موجود ہیں، عمران خان کے سارے وزیر بھی وہیں ہیں اور وہ سب ہماری مدد کے لئے بڑھ چڑھ کر اپنی تجاویز دے رہے ہیں۔
بچہ ایک بار پھر خوش ہو کر کہتا ہے بابا پاکستان کتنا اچھا ہے جب وہ آ گئے تو انڈیا کی ساری فوج بھاگ جائے گی پھر کوئی ہمارے گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا مگر اگلے ہی لمحے بابا کی آنکھوں سے چھلکتے آنسو دیکھ کر ننھا بچہ گھبرا جاتا ہے، شائد سمجھ جاتا ہے کہ بابا کی امید دم توڑ رہی ہے اور پھر پوتا اپنے دادا کو حوصلہ دیتے ہوے کہتا ہے،بابا آپ پریشان نہ ہوں، پاکستان نہ بھی آیا تو میں جب بڑا ہو جاؤں گا تو میں انڈیا سے چھین کر آزادی لے لوں گا۔ لیکن بابا آپ مجھ سے ناراض نہ ہونا، اگر پاکستان مدد کو نہ آیا تو میں پاکستان کا جھنڈا دیوار سے اتار دوں گا اور دوبارہ کبھی نہیں لگاؤں گا۔
دادا اپنے آنسو پونچھتے ہوے پوتے کو گلے لگا کر کہتا ہے “بیٹا جب تم آزادی حاصل کر لو گے تو میری قبر پر آکر ضرور بتانا کہ ہمارا وطن کشمیر آزاد ہو چکا ہے، پھر میں بھی سکون کی نیند سو جاؤں گا۔