پاکستان زندہ باد! مگر کیسے؟

عاطف توقیر

پاکستان کی پیدائش کو بہتر برس مکمل ہو چکے ہیں۔ اس بیچ میں کئی سانحات ہمارا مقدر رہے مگر کچھ مواقع ایسے بھی ہیں، جنہیں ہم اپنی تاریخ کا سنگ میل کہہ سکتے ہیں۔

پاکستان کی تخلیق کے فوراﹰ بعد جناح صاحب کی وفات کی وجہ سے ملک کو وہ مضبوط جمہوری اساس نہ مل سکی، جو اسے ایک مستحکم جمہوریہ بناتی۔ گیارہ اگست کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں جناح صاحب نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ریاست تمام شہریوں کے ساتھ مذہب، رنگ، نسل اور قوم کے ساتھ یکساں انداز سے پیش آئے گی۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جناح صاحب پاکستان کی تخلیق کے بعد زیادہ دن نہ جیے اور ملک میں جمہوری رویہ پنپ ہی نہ سکا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ایک پراسرار واقعے میں قتل کر دیے گئے اور ان کے بعد اقتدار پر سویلین گرفت کم زور سے کم زور تر ہوتی گئی، جب کہ اس عدم استحکام کی وجہ سے فوج کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، جس کا نتیجہ طویل مارشل لا کے ادوار تھے۔

ہماری اس سے بڑھ کر بدقستمی کیا ہو گی کہ جمہوری انداز سے بننے والے ملک کے باسیوں میں بہتر برس گزرنے کے باوجود اس بات پر اتفاق نہیں کہ جمہوریت اس ملک کی ترقی کا واحد راستہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں بھی عسکری اثر و رسوخ، مداخلت، توڑ پھوڑ، خریدنا بیچنا اور ایسے دیگر عنصر مسلسل پرواز چڑھتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ حقیقی عوامی رہنماؤں کی جگہ پر کم زور اور مصلحت پسند افراد کو سامنے لایا جاتا چلا گیا۔ اور پھر ان میں سے بھی کسی نے وقت گزرنے کے بعد یہ یہ سبق سیکھا کہ ملک کی بقا کا واحد راستہ جمہوریت اور عوام کی قوت میں اضافہ ہے، تو انہیں کی ماضی کی مصلحتیں، کم زوریاں اور کوتاہیاں ان کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی رہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک اب بھی نوجوان سے لے کر بوڑھے افراد تک جمہوریت، خلافت، صدارت، آمریت اور جانے کون کون سے مختلف نظاموں کو درست گردانتے نظر آتے ہیں۔

علمی بحث کا ہمارے ہاں رواج نہیں اور نہ میڈیا یہ بتانے پر آمادہ ہے کہ ملک میں جمہوری دستور رائج ہے اور اس دستور کے تحت ملک میں تمام نظام عوام کی مرضی کے تابع ہے۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ خلافت ہو یا صدارت یا کوئی بھی دوسرا طریقہ کار، سب صرف اور صرف عوام کی منشا کے مطابق طے کیا جا سکتا ہے، تاہم نظام ہر حال میں جمہوریت یعنی عوام کی رائے ہی ہو گا۔

جمہوریت فقط انتخابات کروا کے نمائندے ایوانوں میں بھیجنے کا نام نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کے فیصلے کی قوت کا نام بھی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے ہاں جمہوری ادوار بھی اصل میں جمہوریت نہیں بلکہ فقط جمہوریت کے راستے پر اٹھائے گئے چند قدم تو تھے، حقیقی جمہوریت ہم سے کوسوں دور ہے۔ نہ ابھی سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط اور جمہوری ہیں کہ جمہور کو بالا رکھ سکیں۔ نہ یہاں طلبہ یونینز موجود ہیں کہ نئے سیاست دانوں کی کھیپ تیار ہو اور نہ مزدور یونینز اتنی توانا ہیں کہ مختلف فیصلوں پر اثرانداز ہو سکیں۔

تاہم تمام تر کم زوریوں کے باوجود ایک عجیب معاملہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس ملک میں پیش ہونے والی ہر اہم پیش رفت جمہوری ادوار ہی میں ہوئی اور ملک کی تاریخ کا ہر بڑا سانحہ آمریت میں پیش آیا۔ جمہوریت میں اگر کوئی واقعہ پیش آیا بھی، تو اس کے جواب میں تمام جماعتیں ایک ساتھ جمع ہوئیں اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیے گئے اور فیصلوں میں کم زور عمل درآمد کے باوجود مجموعی بہتری ہی ہوئی۔

وہ چین کے ساتھ تعلقات کی ابتدا تھی، یا او آئی سی کا قیام، ملک میں جوہری توانائی کمیشن کی تخلیق تھی یا جوہری ہتھیاروں کی جانب پیش قدمی، متفقہ آئین کی منظوری تھی یا آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کی دی جانے والی زیادہ سے زیادہ خودمختاری، جوہری دھماکے ہوں یا  یمن جنگ سے بچ جانا تھا یا نیشنل ایکشن پلان۔ پاکستان کی تاریخ کا کوئی بھی ایسا واقعہ یا پیش رفت دیکھ لیجیے، جسے سنہرا واقعہ قرار دیا جا سکتا ہو، آپ کو دکھائی دے گا کہ اس وقت جمہوریت تھی۔

دوسری جانب سانحات کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے ڈھاکا یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے حق میں طلبہ کے احتجاج پر فائرنگ کا واقعہ ہو، ملک کے دریا بھارت کو دینا ہو، پینسٹھ اور اکہتر کی جنگیں ہوں، تاشقند معاہدہ ہو، ملک کا ٹوٹنا ہو، سوویت جنگ میں ملک کا جھونکا جانا ہو، اوجھری کیمپ ہو یا ملکی فضائی اڈے امریکا کے حوالے کرنا، بارہ مئی ہو یا  اپنے شہری بغیر مقدمہ چلائے گوانتانامو بھجوانا ہو، ملک میں شہریوں کی گم شدگی کی ابتدا ہو یا ڈرون حملوں کا آغاز۔

ملک کی بہتر سالہ تاریخ میں کوئی بھی ایسا سیاہ دن یا سانحہ دیکھیے اور پھر یہ دیکھیے کہ اس وقت ملک کا حاکم کون تھا۔ حالات آپ کے سامنے آ جائیں گے۔

پھر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیل بھی سدا عہدے پر نہیں رہ سکتے۔ وہ دستور معطل کرتے ہیں اور مارشل لا لگاتے ہیں، ملکی سویلین ادارے کم زور کرتے ہیں اور پھر آخر میں انہیں دوبارہ دستور بحال کرنا ہی ہوتا ہے اور جمہوریت واپس آنا ہی ہوتی ہے۔

یہ بحث اب ختم ہو جانا چاہیے کہ ملک کے لیے کون سا نظام ٹھیک ہے۔ اب بحث یہ ہونا چاہیے کہ ہم حقیقی جمہوریت کی طرف کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر کس طرح دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ جمہوری رویے اپنائیں، موروثیت کا خاتمہ ہو، پارلیمان بالا اور فعال ہو، ملک میں دستور کی بالادستی ہو، فوج سمیت تمام ادارے اپنے اپنے دستوری دائروں میں کام کریں اور پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوں اور ہم اپنے دیس کے لوگوں کی زندگیوں کو کس طرح بہتر کریں تاکہ ان کے مفادات ملک کے مفادات سے جڑ سکیں۔ فرد اور ریاست کے درمیان حقوق اور فرائض کا دوطرفہ لین دین ہوتا ہے، فرد کی ذمہ داری ریاست کے حقوق اور ریاست کی ذمہ داری فرد کے حقوق کی صورت میں ہوتی ہے۔ ریاست ذمہ داری ادا نہ کرے تو فرد بھی ذمہ داری سے دور ہو جاتا ہے۔

یہاں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ستر سال کی اس مسافت اور ابہام کی وجہ سے تھکتا نظر آتا ہے۔ مجھے کئی پڑھے لکھے دوست نظر آتے ہیں، جو پاکستان ہی سے متنفر ملتے ہیں۔ کئی قومیتوں کے لوگ ہیں، جو پاکستان ہی کو تمام مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔ حقیقت لیکن یہ ہے کہ لڑائی پاکستان کے خلاف نہیں پاکستان کے لیے ہے۔ پاکستان آپ اور میں ہیں۔ پاکستان کی مضبوطی اسی میں مضمر ہیں ہے کہ ہم ملک میں ہر قومیت، ہر رنگ، ہر نسل، ہر زبان اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کی شہری آزادی، حقوق اور تحفظ کے لیے کام کریں۔

پاکستان ایک پھول نہیں ایک گل دستہ ہے، جس میں بہت سے پھول ہیں اور ہر پھول نہایت اہم ہے۔ ہر پھول کی اپنی مہک اور اپنی کہانی ہے۔ پھول نوچ کر گل دستہ نہیں بچ سکتا۔ گل دستہ ان پھولوں کی بقا سے مشروط ہے۔

ان پھولوں کو توانا اور تروتازہ رکھنا ہی پاکستان کی بقا ہے۔ یہ پھول جب تک اس گل دستے کا حصہ ہیں اور مسکراتے ہوئے حصہ ہیں، اس وقت تک پاکستان کی بقا کو کوئی خطرہ نہیں اور تاہم ان پھولوں کے مسکرانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی بات سنی جائے۔

اسی کا نام جمہوریت ہے، یہی ترقی کا راستہ ہے اور اسی سے پاکستان زندہ باد ہو گا۔