پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق
عتیق سید
پاکستان کے قیام سے آج تک یہاں کبھی قیادت کا فقدان رہا، کبھی دہشت گردی، کبھی اسلامائزیشن، کبھی جہاد کے نام پر کشت و خون تو کبھی بیرونی طاقتوں کا اثر رسوخ۔ اس کے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے ممالک نے اپنی توجہ معیشت پر مرکوز رکھی تو انہوں نے اپنی آنے والی نسلیں تک سنوار دیں جبکہ بقول ہمارے مذہب کے نام پر بنی ریاست، جس کی چھیانوے اعشاریہ دو فیصد آبادی مسلمان ہے، کو اگر کسی چیز سے خطرہ رہا تو وہ طاغوتی طاقتیں اور مذہب ہی رہے۔ پاکستان کے بانیوں میں شامل غیر مسلموں اور بقایا وہ افراد جو ملک میں نصاب اور قانون میں ترامیم کی باتیں کرتے تھے، کو ہمیشہ غیر ملکی ایجنٹ جیسے ٹائٹل دیئے جاتے رہے۔ پاکستان میں چھیانوے اعشاریہ دو فیصد مسلمان ہیں۔ یہ ملک اس کے بانی نے غیر مسلمانوں کے لیئے بھی اسی طرح بنایا تھا جیسے مسلمانوں کے لیے۔ جب بانی ہی نہیں رہا تو چوکیدار اپنی مرضی کے درخت لگاتے رہے جن میں کچھ پھل دار تھے اور کچھ کا تو سایہ بھی نہیں تھا۔
پاکستان کی 2017 کی کیلکولیشنز کے مطابق پاکستانی کی کل آبادی کا 1.6 فیصد ہندو، باقی مذاہب 0.2 فیصد، احمدی 0.22 فیصد، 1.59 فیصد کرسچن اور باقی کی مائنارٹیز0.07 ہیں۔ پاکستان ہندو کاؤنسل کے 2019 کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 8 ملین ہندو بستے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی سے ہے اس کے علاوہ باقی صوبہ جات میں بھی ان کی تعداد موجود ہے۔ ہندوؤں کی یہی تعداد 1947 میں 24 فیصد تھی جو قیام کے بعد مائیگریٹ کر گئی یا دہشت گردی اور زبردستی مسلمان بنانے کے عمل سے گزرنے کے بعد اب 2.14 فیصد رہ گئی ہے۔ اسی طرح کرسچنز بھی پاکستان میں 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق اتنے ہی ہیں جتنے ہندو۔ ان کی تعداد کل آبادی کا 1,59 فیصد ہے جو ہندو آبادی کے عین قریب ہے۔ باقی مائنارٹیز کو بھی ملا کر لاکھوں کے حساب سے غیر مسلم پاکستان کے قانونی شہری ہیں۔
اب آتے ہیں پاکستان کے کوٹہ سسٹم کی جانب۔ پاکستان کا پہلا جابز کا کوٹہ سسٹم سنہ 1948 میں بنایا گیا جس میں بنگال اور کراچی کو حقوق کی جنگ میں لڑایا گیا، دوسری بار 1949 کی ترامیم میں 20 فیصد سی ایس ایس کے میرٹ کا کوٹہ رکھا گیا۔ 1956 اور 1970 میں دوبار ہ ترامیم کی گئی۔ کرتے کراتے 2020 میں یہی کوٹہ سی ایس ایس کے لیے صرف 7.5 فیصد میرٹ کی بنیاد پر رہ گیا جبکہ باقی دوبارہ صوبائی تقسیم کی بندر بانٹ کا حصہ بن گیا۔ اقلیتوں ، غیر مسلموں، فاٹا، جی بی اور کشمیر کے لیے بھی ایسا ہی کوٹہ رکھا گیا جس سے ان افراد کے لیئے اعلیٰ سطح کی نوکریاں خواب بن کر رہ گئیں۔
ان دنوں پورا سوشل میڈیا ایک گن گانے لگتا ہے جب کوئی غیر مسلم سی ایس ایس کر لے۔ بی بی سی سے لے کر ڈان اور تمام میڈیا چینلز یہ دکھانے لگتے ہیں کہ پہلی بار ایک ہندو لڑکی نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اٹھ ملین ہندووں اور لگھ بھگ آٹھ ہی ملین کرسچنز میں ان گزشتہ چوہتر سالوں میں کیا کوئی ایک بھی ایسا ہونہار پیدا نہیں ہوا جو سی ایس ایس یا اس طرح کے باقی امتحان پاس کر سکتا ہو؟ کیا اس پورے عرصہ میں ان کو تمام تر یکساں حقوق ملتے رہے لیکن ان کی اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے وہ اس قابل نہ بن سکے کہ آفیسرز بن سکیں؟
جواب سادہ سا ہے کہ ان کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا اور آج بھی کیا جاتا ہے۔ کبھی ان کو ملک چھوڑنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کبھی ان کو بلاسفیمی کے جھوٹے کیسز میں الجھا دیا جاتا ہے۔ کبھی ان کو زبردستی مسلمان بنایا جاتا ہے تو کبھی کہہ دیا جاتا ہے اپنے ملک انڈیا چلے جاؤ۔ کرسچنز کو کہا جاتا ہے کہ تم نے تو ہمارے گٹر ہی صاف کرنے ہیں۔ کتنے مسلمانوں کو آپ نے اپنی صفائی خود کرنے پر مامور کر رکھا ہے؟ کیا ان غیر مسلموں کے لیئے صرف گٹر صاف کرنا ہی ایک کام ہے؟ کیا اسلام نے یہ تعلیمات دی تھی کہ تم اپنے سے کمزور پر ظلم کرو اور اس کے غیر مسلم ہونے کی سزا کے طور پر اس سے ساری زندگی اپنے گٹر ہی صاف کرواتے رہو؟
اگر یہ تمام باتیں میری اپنی ہوتیں تو شاید صرف باتیں لگتیں۔ آپ زینہ شوکت کا آرٹیکل Why is sanitation work reserved for non-Muslim minorities جو 2020 میں شائع ہوا ہے وہ ضرور پڑھیں۔ کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم ان تمام مسائل کو آہستہ آہستہ لے کر چلیں گے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس تعصب سے پاک ایک سکون والے ماحول میں سانس لے سکیں جہاں انصاف صرف کتابوں کی حد تک ہیں نہیں بلکہ عملاََ مہیا ہو سکے۔