پشاور اسکول سانحہ اور انسانیت

سرداراشفاق عباسی

16دسمبر2014 کو جب آرمی پبلک اسکول پشاور میں کسی کلاس میں بچے ہم آواز ہوکر کوئی نظم پڑھ رہے تھے، کسی کلاس میں ‘انسان اشرف المخلوق ہیں’کے موضوع پر مضمون لکھ رہے تھے تو اچانک چند انسانوں نے ایسی چال چلی کہ ان کے مضامین کے سارے الفاظ پھیکے پڑ گئے۔ دہشت گردوں نے معصوم بچوں، اساتذہ اور جو بھی ان کے سامنے آیا سب کو اپنی جنونیت کا نشانہ بنایا۔
ہر مجسمے ،تصویر، اور تاریخ کے پیچھے ایک کہانی پنہاں ہوتی ہے۔ ایسی ہی کچھ تصاویر، مجسمے اور تاریخ میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں جب وحشت کی، جنونیت کی، نفرت کی، دہشت کی، خوف اور خون کی بات آتی ہے۔ اگر ایک طرف انسانی تاریخ جرات، بہادری اور ذہانت کے کارناموں سے بھری پڑی ہے تو دوسری طرف یہ کروڑوں انسانوں کے خون سے لتھڑی ہوئی بھی ہے۔ اس میں محبت کی مہک ہے تو نفرت کے شرارے بھی ہیں۔ شاید وجود کی بنیاد ہی تضاد ہے۔
تاریخ میں یہ پہلی بارنہیں ہوا تھا کہ معصوم انسانوں کو خاص کر طلبہ کو جارحیت پسندوں نے اپنے نظریاتی، سیاسی، معاشی یا اختیاراتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے موت کے گھاٹ اتاردیا ہو، ایسا پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے۔
تاریخ خون کے دھبوں سے داغ دار ہے۔ ہماری یادداشت تھوڑی کم زور ہے، ہم سب بھول جاتے ہیں، جیسے ہم بہت سی تاریخ اور سانحے بھول چکے ہیں، ویسے ہی گزرتے وقت کے ساتھ یہ زخم بھی شاید بھر جائیں اور یہ درد جو ہماری رگوں میں آج ہم دردی کی حرارت پیدا کرتا ہے اور جس کی وجہ سے آ ج ہم اس سانحےکو یاد رکھنے کے لیےنغمے لکھتے ہیں گاتے ہیں یہ حرارت کب تک رہے گی؟؟
ہم نے پہلے بھی کئی عزم کیے تھے، آج بھی ہم دشمنوں کے بچوں کو پڑھانے کا عزم کرتے ہیں لیکن ہمارے تمام عزم وقتی ہیں اور زیادہ تر جذبات پر مبنی ہیں۔ اگرہمیں عزم کرنا ہی ہے تو ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو پاکستانی، ہندوستانی، امریکی، افغانی، ہندو، مسلمان، عیسائی، سندھی، پنجابی، پٹھان، کالا، گورا، امیر، غریب ہونے کے درس کو بھلا کر انسانیت کا درس دیں گے۔ کیونکہ یہ ہم ہی ہیں جو تنگ نظری کی وجہ سے اپنے ہی دشمن بنتے ہیں، کسی اور سیارے سے کوئی نہیں آتا اور ہماری زمیں کو خون آلود کرتا۔ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جو سوچتے ہیں کہ سبھی انسان ان کی طرح سوچیں، ان کے خیالات پر لبیک کہیں اور زندگی ان کے بتائے اسلوب سے گزاریں لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ تنوع، گوناگونی اک حقیقت ہے اور ہم اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے۔
جب تک ہم اپنے آج کو نہیں بدلیں گے تب تک ہمارا کل اسی طرح بلکتا، سسکتا، اور وحشت زدہ رہے گا۔