ہم اور ہماری سیاسی آزادی

ساجد محمود خان

کسی بھی جمہوری معاشرےمیں سیاسی آزادی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں جمہوری اقدار کمزور ہو جاتی ہیں، وہاں پر سیاسی آزادی کو اپنے مزموم عزائم کے لیے منفی انداز میں پیش کیاجاتا ہے۔ مثلاٰ اگرکوئی فرد کسی حکومتی پالیسی پر تنقید کرے تو اُسے غدار اور ملک دُشمن کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں سیاسی آزادی اور غداری جیسے تصورات میں فرق سمجھنا بہت ضروری ہے، خاص کر اُس معاشرے میں جہاں کافر، غدار اور ایجنٹ جیسے فتوے لگانا کوئی مشکل کام نہ ہو۔ شاید اسی لیے احمد فراز نے کہا تھا۔

پھر وہی خوف کی دیوار، تذبذب کی فضا

پھر ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں

نعرۂ حُبِ  وطن مالِ تجارت کی طرح

جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں

جب کسی معاشرے میں ایک خاص طبقہ اپنے مزموم عزائم کے لیے لوگوں میں سیاسی شعُور کو ایک خاص سمت میں ڈیکٹیٹ کرتا ہے اور  جہاں اُن کے اندر اُٹھنے والے بنیادی سوالوں کو دبایا جاتاہے، تو ایسا معاشرہ ذہنی اور شعوری طور پر بانجھ پن کا شکا رہو جاتاہے۔ اور جب کوئی معاشرہ ذہنی پسماندگی کا شکار ہوتاہے تو پھر وہاں پر ارسطو ، افلاطون اور فرابی جیسے فلاسفرنہیں بلکے صرف شاہ دولا کے چوہے ہی جنم لیتے ہیں۔

آج ہمارے معاشرےکی حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔آج بھی ہمارے معاشرے میں لوگوں کی سیاسی آزادی کودبایا جاتاہے۔ اُن کے جائزحقوق کے لیئے بولنے والوں کوڈرایا اور دھمکایاجاتاہے۔ وہ میڈیا جسے لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا تھا آج اُسے ریٹنگ کی دوڑ سے فرصت نہیں ہے۔ ہمارا میڈیا دو گروپوں میں تقسیم ہوکر ایک نوازشات ( ن لیگ) دوسرا عمرانیات ( عمران لیگ )کی کوریج میں مصروف ہے۔ آج ہمارے ملک کے محتلف علاقوں میں لوگ اپنے بنیادی سیاسی اور انسانی حقوق کے لیئے مظاہرے کررہے ہیں اور چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ آزادی ہے؟ اور مجال ہے جو عوامی نمائندوں، میڈیا اور با اثر افرادکو کو ان لوگوں کی ایک بھی سسکی سُنائی دے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کی یہ پارلئمنٹ انگریزوں کے بنائے ہوئے ایک قانون تک کو بھی نہ ختم کر سکی جس نے فاٹا کے عوام کا جنیا حرام کیا ہواہے ۔ا ب حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو وہ ان لوگوں کی آواز کو دبادیں یا پھر وہ ان کے ساتھ مزاکرات کر کے ان کے مسائل کا  کوئی دیرپا سیاسی حل تلاش کریں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دھشت گردی جیسے لعنت کو ختم کرنے کے لیئے حکومت کو غیرمعمولی اقدامات کرنے چاہییں۔ مگر ان غیر معمولی اقدامات کی آڑ میں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب نہ کیا جائے۔لوگوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے صرف ہوا، پانی اور خوراک کی ہی ضرورت نہیں ہوتی بلکے زندہ رہنے کے لیے انسان کو اور بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ آج کا انسان صرف کسی حد تک پاپندیاں برداشت کر سکتا ہے اور  جب اُس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گا تو وہ احمد ندیم قاسمی کی ایک نظم کی طرح بولنے لگے گا۔

زندگی کے جتنے دروازے ہیں، مجھ پر بند ہیں۔

دیکھنا، حدِنظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا جرم ہے۔

سوچنا ! اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے۔

آسماں در آسماں کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے۔ کیوں بھی کہنا جرم ہے،کیسےبھی کہنا جرم ہے۔ سانس لینے کی تو آزادی ہے مگر

زندہ رہنے کےلئے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے اور اس کچھ اور کا بھی تزکرہ بھی جرم ہے۔

اے ! ہنرمندانِ آئین و سیاست، اے ! خداوندانِ ایوان و عقائد

زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے۔ مجھ کو اِن سارے جرائم کی اجازت چاہئیے۔