تنقید اپنی جگہ مگر عوام کے فیصلے کا احترام کیجیے
عاطف توقیر
عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کسی بھی دوسری جماعت سے زائد نشستیں حاصل کر چکی ہے اور اب اسے حکومت بنانا ہے۔ عمران خان کا خطاب میں نے نہایت توجہ سے سنا۔ گو کہ اس خطاب میں متعدد باتیں قریب وہی تھیں، جو اس سے قبل بھی جیتے والے رہنما وعدوں کی صورت میں پاکستانی قوم سے کرتے آئے ہیں، تاہم اہم بات یہ تھی کہ اپنے اس اولین خطاب میں عمران خان نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ اہم باتیں کیں۔
عمومی طور پر خارجہ پالیسی پر سویلین حکومتوں کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر رہا ہے اور یہ علاقہ خالصتاﹰ فوج طے کرتی آئی ہے۔ گو کہ اس معاملے میں حقیقی معنوں میں سویلین کنٹرول حاصل کرنے میں پاکستان تحریک انصاف کو شدید محنت کرنا پڑے گی، تاہم اس موقع پر سب سے زیادہ بھاری ذمہ داری اپوزیشن بینچوں پر براجمان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی پر بھی عائد ہو گی۔ یہ اہم موقع ہے کہ اگر ایک طرف تحریک انصاف حکومت سازی کی پوزیشن میں ہے، تو دوسری جانب اپوزیشن بھی کم زور نہیں ہے۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں نشستیں ملائی جائیں تو وہ بھی سو سے زائد بنتی ہیں، اس لیے دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا یہ جماعتیں جو عوام کو اب تک یہ بتاتی آئی ہیں کہ وہ جمہوریت اور دستور کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں، اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر یہ فریضہ درست انداز سے نبھا پائیں گی؟
ان انتخابات کی شفافیت پر سوالات بھی ہو سکتے ہیں اور دھاندلی کے الزامات کی صورت میں الیکشن کمیشن کے کردار پر سوالیہ نشانات بھی، تاہم اپنے خطاب میں عمران خان نے کم از کم کھلے پن کے ساتھ یہ واضح کیا کہ جس جس حلقے میں بھی دھاندلی کی شکایت ہو گی، ان کی حکومت اس پر توجہ دے گی اور تحقیقات میں مدد کرے گی۔
تحریک انصاف کی اچھی بات یہ ہے کہ اس جماعت نے کسی ایک صوبے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مسلم لیگ نواز سکڑ کر پنجاب کی ایک جماعت بن چکی ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اب سندھ کے علاوہ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں تحریک انصاف کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اسے پاکستان میں پھیلی تقسیم کے خاتمے پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں گم شدہ افراد، ماورائے آئین و قانون قتل، جعلی پولیس مقابلے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات فوج اور ملکی اداروں پر عائد کیے جا رہے ہیں اور ایسے میں عمران خان کو ان اقدامات کی ضرورت ہو گی، جو پشتونوں، بلوچوں، مہاجروں، سندھیوں اور دیگر برادریوں کا ریاست پر اعتماد بحال کرنے میں مدد دیں۔
بدقسمتی سے اپنی پہلی تقریر میں عمران خان نے نہ انسانی حقوق کی صورت حال پر بات کی اور نہ ہی گم شدہ افراد کے معاملے پر، مگر چوں کہ امید پر دنیا قائم ہے، تو یہ امید ضرور کی جا سکتی ہے کہ جس طرح ماضی میں عمران خان ان معاملات پر بات کرتے تھے، وزیراعظم بننے کے بعد دیگر جماعتوں کی طرح اس اہم معاملے پر خاموشی اختیار کر کے ریاستی اداروں کے کردار پر مزید سوالیہ نشانات پیدا ہونے سے اجتناب برتیں گے اور پاکستان کی تمام قومیتوں کو ایک پیج پر جمع کریں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد انتخابات ہیں، جن میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ قریب تمام جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، ایسے میں دیکھنا یہ ہو گا کہ عمران خان کس طرح اس سنگین معاملے سے نمٹتے ہیں اور قوم کا جمہوری نظام پر اعتماد بحال کرواتے ہیں۔
ملک میں سویلین بالادستی اور دستور کی حکم رانی کے لیے نہایت ضروری ہے کہ عمران خان کو پوری سپورٹ دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی حکومت پر تعمیری تنقید کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے تاکہ وہ جمہوریت کی پٹری پر قائم رہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے ایک اور بڑا چیلنج ملک میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے ہو گا۔ حالیہ کچھ عرصے میں مختلف صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کی جانب سے یہ اشارے ملے ہیں کہ انہیں کھل کر اظہار خیال کا موقع نہیں دیا گیا اور انہیں پی ٹی آئی پر تنقید سے روکا گیا۔ ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ پاکستانی میڈیا حکومت پر کھل کر تنقید کرتا آیا ہے، دیکھنا تاہم یہ ہو گا کہ کیا تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں صحافیوں کو یہ جگہ واپس ملتی ہے یا انہیں اس سلسلے میں ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا ہو گا؟
ان انتخابات کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ماضی میں اپنے اپنے حلقوں میں ہمیشہ جیت جانے والے امیدواروں کو اس بار ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر اس سلسلے میں دھاندلی یا بے ضابطگیوں کے الزامات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے، تو چوہدری نثار، فاروق ستار، خواجہ سعد رفیق، غلام بلور، مصطفیٰ کمال اور متعدد دیگر اہم ناموں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاکستان میں عوامی رائے کس حد تک میڈیا کے ہاتھوں تبدیل کی جا سکتی ہے اور اب صحافیوں کا کردار ملک میں جمہوریت کی بحالی اور استحکام کے اعتبار سے اور بھی زیادہ ہو گیا ہے۔
عمران خان نے اپنے اس خطاب میں بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے مذاکرات کا اعلان بھی کیا۔ یہ اعلان اس سے قبل بھی جیتے والے رہنماؤں کی جانب سے ہوتا رہا ہے، تاہم دیکھنا یہ ہو گا کہ خارجہ پالیسی جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس پر سویلین کنٹرول نہیں ہوتا، کیا عمران خان اس پر کسی حد تک کنٹرول حاصل کر پائیں گے؟ گزشتہ روز اسد عمر صاحب کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ دھاندلی کے الزامات انہیں جماعتوں کی جانب سے سامنے آ رہے ہیں، جو بھارتی اشاروں پر کام کرتی ہیں تاہم اپنے خطاب میں عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیں گے۔
ان انتخابات کے بعد ایک بھاری ذمہ داری اب پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے سر پر ہو گی۔ یہ دونوں جماعتیں اپنے بیانیوں میں کہتی آئی ہیں کہ وہ ماضی کے خراب تجربات کے بعد اب جمہوری رویوں پر کاربند ہیں۔ دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا اتنی بڑی اپوزیشن کی صورت میں پارلیمان یہ جماعتیں اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کر پاتی ہیں؟ ان دونوں جماعتوں کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ یہ اب دھرنوں اور احتجاج کی سیاست سے باہر نکلیں اور پارلیمانی سیاست کریں اور ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے یک نکاتی ایجنڈے پر کام کریں۔ اگر پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے تو سویلین ادارے خود بہ خود مضبوط ہوں گے اور ذمہ داریاں انجام دے پائیں گے۔
اس وقت ملک کے قریب تمام اہم کاموں میں فوج مصروفِ عمل ہے، تاہم اگر فوج کو اچانک واپس بیرکوں میں بھیجا جائے، تو سوال یہ ہو گا کہ کیا سویلین ادارے اس قابل ہیں کہ وہ اس خلا کر پُر کر سکیں۔ میرے خیال میں جب تک سویلین ادارے ایک نظم کے ساتھ عوام کی خدمت کے کام میں مصروف نہیں ہوتے، نہ تو فوج کو اس کے دستوری دائرے میں بھیجنا آسان ہو گا اور نہ ہی ملک کی قسمت کے فیصلے سویلین حکومت اپنے ہاتھوں میں لے پائے گی۔ اس صورت حال میں اپوزیشن کو چاہیے کہ ملک میں اداروں کی مضبوطی کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کا ساتھ دے، تاکہ ہماری اگلی نسلوں کا اس کا فائدہ پہنچے۔
یہ بات ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان ابھی جمہوریت سے بہت دور ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو ایک پھل دار درخت بننے میں ابھی وقت درکار ہے۔ اگر ہم بار بار انتخابات کے عمل سے گزرے اور بہتر اور جمہوری انداز سے ایک طرف حکومت پر تنقید اور دوسری جانب جمہوریت کی حق میں کام کریں گے، تو ہماری اگلی نسلیں جمہوریت کا اصل پھل کھا پائیں گی۔ اس حوالے سے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، اس لیے سب جمہوریت کے ساتھ جڑے رہیں اور یک سوئی کے ساتھ اس ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے لیے کام کریں۔
تحریک انصاف کو کامیابی مبارک ہو اور امید ہے کہ عمران خان اب فقط ایک جماعت کے قائد کی بجائے پاکستان کے رہنما کی حیثیت سے کام کریں گے اور اپنے اس خطاب سے یوٹرن لینے اور اسے صرف ایک سیاسی بیان کی بجائے اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ ملائیں گے، ملک کے سویلین اداروں کو آزاد، شفاف اور خودمختار بنائیں گے اور قوم ہر درست اور جمہوری عمل میں ان کی ہم نوا ہو گی۔