انکشافات

وقاص احمد

خاں صاحب، جب تک یہ سطور لکھی جائیں گی، امید ہے کہ آپ خیر خیریت سے ہوں گے اور آپ کے یار غار نااہل ترین صاحب اپنے پرائیویٹ جیٹ میں ملک کے ہر کونے کھدرے میں چھپا آذاد امیدوار کھوج کر، بھر بھر کر آپ کی خدمت میں پیش کر چکے ہوں گے۔ خیر آپ کے مریدین تو نااہل ترین کی نااہلی کے بعد ہماری جان کو آگئے تھے کہ دیکھو اخلاقی معیار، دیکھو جرآت کا نشان دیکھو اس حق پرست کو کہ عدالتی نااہل ہوتے ہی پارٹی کا عہدہ چھوڑا اور سائیڈ لائن ہوگئے مگر اس کے بعد سوال یہ بنتا ہے کہ اب تک نیا جنرل سیکرٹری کیوں نہیں آیا اور ابھی تک آپ اور آپ کی بیگم کے اخراجات وہی کیوں پورے کرتے آ رہے ہیں؟ لیکن یہ سوال کرنے کا ہمیں حق نہیں کہ ہم نے تو آپ کو ووٹ نہیں ڈالا۔ اور جنہوں نے ووٹ ڈالا ان کے پاس اس کے جواب میں ایسی ایسی درفنتنیاں ہوں گی کہ آپ بھی کیا بہتر جواب گھڑ سکیں گے۔

مجھے نہیں معلوم کہ آذاد امیدوار “گرفتار” کر کے آپ کے قدموں میں پھینکنے کے بعد عون چوہدری صاحب ان سے 100 روپے والے سٹامپ پیپر پر حلف وفاداری سائن کرواتے ہیں یا 500 والے پر۔ لیکن گزارش یہ تھی یہ چھوٹی اور معمولی سی رقم بھی کیوں ضائع کر رہے ہیں، خاتون اول کو درخواست کریں ناں کہ ان “آذاد” امیدواروں پر ایسا ٹونہ کریں جیسے “محبوب آپ کے قدموں” والا جادو ہو۔ یہ رقم بچا کر آپ ثاقب نثار صاحب کے “ڈیم بناؤ” فنڈ میں جمع کروایں لیکن سنا ہے کہ ثاقب نثار صاحب کو دی گئی”ڈیم فول بناؤ” ڈیوٹی ختم ہوگئی ہے اور انہوں نے “اعتراف” کر لیا کہ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں تھا کہ ڈیم بنانا عدالت نہیں حکومت کا کام ہوتا ہے۔۔ بنا کوئی معذرت کیے، شرمندگی کے ایک قطرہ بھر پیسنہ تک ماتھے پر لائے بنا۔۔۔ (کیسے کیسے بے شرم ہمارے ملک میں کیسے کیسے عہدوں پر جا پہنچتے ہیں). اور ہم تو اب بقول شخصے “ہوئے جس کی خاطر کافر، وہ کافر مسلماں ہوگیا” حیران بیٹھے ہیں کہ اب پاکستان کے “آبی مسئلے” کا کیا بنے گا۔

کالم کہیں سے کہیں پہنچ گیا، اصل میں بات تو مجھے کچھ اور پوچھنی تھی۔ اب جبکہ آپ اپنے خوابوں کی تعبیر “وزیراعظم کی شیروانی” کو پہننے کو چند دنوں کے فاصلے پر ہیں تو ضروری ہے کہ آپ سے وابستہ کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے ہم بھی آپ کے حلقہ اردت اور خاتون اول کے مریدین کی فہرست میں شامل ہو سکیں۔ خاں صاحب، سچ سچ بتائیے گا کہ جو چھبتے ہوئے، تیکھے، گہرے گھاؤ لگاتے سوالات (ملکی معاملات سے متعلقہ) جو آپ ن لیگ کی حکومت یا ان کے وزرائے اعظم سے کرتے رہیں ہیں کیا آپ ان کے اصل جوابات سے بے بہرہ تھے یا پھر جانتے بوجھتے ان کی ٹانگیں کھینچتے تھے؟ اگر آپ جان بوجھ کر ایسا کرتے تھے تو پھر تو آپ اس قابل نہیں کے آپ سے کسی خیر کی توقع کی جائے کہ وہ شخص جو پاکستان کو جانتے بوجھتے تباہ کرنے کے درپے رہا ہوا اس پر تو تین حرف ہی بھیجے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو واقعی ان سوالات کے جواب نہیں پتہ تھے اور بیگم صاحبہ نے بھی اپنے روحانی کشف سے آپ کو مستقبل کی آگاہی نہیں دی تو اگلے چند مہینوں میں آپ پر خود کچھ کشف ہوں گے۔

مثلاً

آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ ملک قرضہ کیوں لیتا ہے اور اس قرضے کے بنا گزارہ کیوں نہیں۔

آپ کو بجٹ میں سے “ان کے حصے” اور “اپنے حصے” کا بھی ادراک ہوگا۔

آپ کو پتہ چلے گا کہ جو قرضہ دیتا ہے اس کی شرائط ماننا مجبوری ہوتی ہے

آپ کو پتہ چلے گا کہ سی پیک کے جن معاہدوں کی رازداری پر آپ چیں بچیں ہوتے تھے وہ رازداری کس کا مطالبہ تھا۔

آپ پر انکشاف ہو گا کہ MNA اور MPA کو ساتھ جوڑے رکھنا کتنا مشکل کام ہے۔

آپ کو پتہ چلے گا کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر بولنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔

آپ پر انکشاف ہوگا یہ آپ کا “انسانوں پر انوسٹمنٹ” کا نعرہ اتنا کھوکھلا اور بے بنیاد تھا کہ آپ خود نہیں جانتے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔

آپ پر یہ بھی انکشاف ہو گا کہ حکومت میں بیٹھ کر جواب دینا اور فضول سوالات کو برداشت کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

آپ پر انکشاف ہو گا کہ اس ملک میں غداری اور کفر کے فتوے کس فیکٹری میں تیار ہوتے ہیں۔

آپ کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ یہ فتوے ہمیشہ حکومت کے حصے آتے ہیں، اپوزیشن تو صرف لطف اٹھاتی ہے۔

آپ کو معلوم ہوگا (یا ہو گیا ہے) کہ “مودی کی یاری” کیوں اہم اور ضروری ہے۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ امریکہ کے “ڈومور” کا جواب دینا کتنا مشکل کام ہے۔

آپ کو پتہ چلے گا کہ کلبھوشن کا نام کیوں نہیں لیا جاتا۔

اور شاید آپ کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ کلبھوشن ابھی تک کیوں زندہ ہےاور شاید آپ کو اس قابل بھی سمجھ لیا جائے کہ بتا دیا جائے کہ ہمارے کتنے کلبھوشن ان کے پاس ہیں۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ بیک ڈور چینل ڈپلومیسی کیا بلا ہوتی ہے۔

آپ کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ یہ جندال ٹائپ کریکٹر پاکستان اصل میں کیا کرنے آتے ہیں۔

آپ پر انکشاف ہوگا کہ آپ چاہ کر بھی خارجہ پالیسی اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے اور آپ کو شاید یہ بھی سمجھ لگ جائے کہ نوازشریف کوئی وزیر خارجہ کیوں نہیں لگاتا تھا۔

آپ پر منکشف ہو گا کہ آپ کے اپنی ماتحت فارن اور ڈیفینس منسٹری آپ کو رپورٹ کرنے سے پہلے کس جگہ پر رپوٹ کرتی ہے
اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ آپ تک معلومات اتنی ہی پہنچتی ہیں جتنا فیصلہ ساز فیصلہ کریں۔

آپ کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ پاکستان کے اصل مسائل وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں اور شاید یہ بھی کہ ہماری خارجہ پالیسی ہی ہمارے معاشی معاملات کی جڑوں میں بیٹھی ہے۔

آپ کو پتہ چلے گا کہ میڈیا کیا بلا ہے۔ آپ پر یہ بھی انکشاف ہوگا کہ یہ بلا کس کے اشارے پر کیسا بیہودہ ناچ ناچتی ہے۔

آپ کو پتہ چلے گا کہ الیکشن کے وعدوں اور حقائق میں فرق ہوتا ہے اور آپ کو یہ بھی احساس ہوگا کہ ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے شہباز شریف کی طرح کی بے چین روح چاہیے ہوتی ہے نا کہ وہ آرام پسند جو گنڈا پوری شہد کی چسکی لگا کر نتھیا گلی کے پہاڑوں پر چڑھ جائے اور ڈینگی ختم ہونے کے لیے سردیوں کا انتظار کرے۔

میں ایک بندہ مسکین، آپ ایک مہان لیڈر اس لیے میری کوئی ذاتی دشمنی آپ سے بنتی نہیں کہ میری زندگی کی چند خوشگوار یادوں میں ایک وہ یاد ہے جب میں پانچویں کلاس کا بچہ تھا، آپ میرے سکول آئے تھے اور میں نے آپ کو ایک عید کارڈ دیا تھا اور آپ نے میرے سر پر دست شفقت پھیرا۔ ان دنوں آپ نے شوکت خانم ہسپتال کا خواب دیکھا اور میں اس خواب کی تعبیر کے لیے گلیوں سڑکوں پر شوکت خانم کے ٹکٹ بیچا کرتا تھا۔ میرا اختلاف تو بس یہی ہے کہ یہ سیاست آپ کا شعبہ اس لیے نہیں تھا کہ سیاست کے لیے جو دور اندیشی، جو حوصلہ، جو ٹھنڈا مزاج، جو معاملہ فہمی اور جو مستقل مزاجی چاہیے وہ آپ میں بالکل نہیں۔ آپ آج تک سیاست کو کرکٹ سمجھتے ہیں اور کرکٹ میں کسی ایک کا ہارنا ضروری ہوتا ہے، سیاست میں سبھی کی جیت کی کوشش ہوتی ہے مگر افسوس آپ اس صلاحیت سے مکمل بے بہرہ ہیں۔ آپ کو کسی نے پکڑ کر اس کرسی پر بٹھا دیا ہے مگر یاد رکھیے کہ کوئی شوکت عزیز کوئی ظفر اللہ جمالی اور کوئی چوہدری شجاعت بھی ایسے ہی کرسی پر بٹھائے گئے تھے۔ وزارت عظمی کی کرسی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے۔ خصوصاً اس ملک میں جہاں کئی ادارے خودسر ہوئے پھرتے ہیں۔ یہ کدو جمہوریہ آف کیلا ریپبلک ہے، یہاں زندہ رہنے کے اصول مختلف ہیں۔

اسد عمر صاحب نے آئی ایم ایف کی نوید سنا دی، آنے والے دنوں میں وہ تمام کام ہوں گے جس پر آپ اور آپ کے فین ثاقب نثار صاحب بھڑکتے تھے۔ یاد رکھیے کہ ہم۔ آپ کے مخالف- حقیقت پسند ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ کیا کچھ کرنا ضروری ہے لیکن اپنے مریدین کے جس جمگھٹے کو آپ نے “نئے پاکستان” کے نغمے سنائے تھے، اگر انہوں نے ہیڈ فون اتار اور وائی فائی بند کر کے آپ سے اصلی سوال جواب شروع کردیے تو پھر کیا ہوگا۔