شفیع کی داستان
عبدالرؤف خاں
میں ایک ایسے شخص کے پاس جا بیٹھا جسے میں پہلے بھی اسی کمالیہ کی گلیوں میں ننگے پیر دیکھا کرتا تھاا لیکن لوگ اسے پاگل کہتے تھے۔ یہ پاگل کبھی گالیاں دے رہا ہوتا تو کبھی قومی ترانہ بُلند آواز سے پڑھ رہا ہوتا۔
کبھی قائداعظم کی تقاریر کے انگریزی اقتباس اس کی زبان پر ہوتے تو کبھی فارسی اشعار کی مٹھاس گھولتا۔ نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن لوگ اسے ایک آنکھ سے محروم ہونے کی وجہ سےشفیع کانا کہتے تھے۔ بڑی عمرکے لوگ اسے تنگ کر کے اپنی حیوانی انا کو تسکین پہنچاتے اور بچے اس کے غضب سے سہم جایا کرتے لیکن میرا تجسس مجھے کسی بھی بات سے بے خبر اس کے پاس لے گیا۔ میں نے ایک روپے کے 10 کیلے خریدے تھے اور ان میں سے کچھ بچے ہوئے میرے ہاتھ میں تھے۔ میں شفیع کے پاس گیا اور وہ کیلے اس کے سامنے زمین پر رکھ دیے۔ صرف یہ کہا ‘یہ کھا لو’۔
وہ بہت بھوکا تھا ، پتہ نہیں وہ اناج کا بھوکا تحا یا انسانی محبت کا۔ میں اس کا اندازہ نہیں کر پایا لیکن اس نے چند لمحوں میں وہ کیلے ختم کر لئے اور مجھے وہاں بیٹھنے کا کہہ کر خود چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کاغذ پر سوہن حلوے کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا جو وہ سامنے خوشی مٹھائی والے کی دکان سے خرید کر لایا تھا۔ اس نے مجھے وہ ٹکڑا دیا اور کہنے لگا کہ آدھا توڑ کر اسے دوں کیوں کہ اس کے ہاتھ گندے ہیں۔ اس کی اس بات سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ پاگل ہرگز نہیں ۔ سوہن حلوہ کھاتے کھاتے وہ رونے لگا اور پھر میرے گلے لگ کر یوں دھاڑ مار کر رویا کہ جیسے کوئی ایک طویل جدائی کے بعد اپنوں سے مل کر روتا ہے۔ راہ گیر ہمارے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہاں سے کھسکنے کا کہنے لگے کہ مبادا شفیع روتے روتے جارحانہ نہ ہو جائے۔
لیکن میں نہ ہلا اور شفیع روتے روتے وہیں لیٹ گیا، شاید سو گیا تھا۔ اسی اثنا میں کسی نے میرے والدِ مرحوم کو اطلاع کر دی کہ میں کس خطرناک شخص کے پاس بیٹھا ہوں۔وہ آئے تھے تو بہت غصے میں تھے لیکن مجھے اور شفیع کو پر سکون دیکھ کر خود بھی بہت کچھ سوچنے لگے اور مجھے دکان پر ساتھ لے گئے ۔
جب پاکستان بنا تو کمالیہ میں جو لوگ ہجرت کر کے آئے تو ان میں سے زیادہ تر کا تعلق امرتسر ،لدھیانہ ، جالندھر اور ہوشیار پور سے تھا۔ چونکہ مذکورہ شہر متحدہ ہندوستان میں بھی علم و ہنر میں ایک خاص مقام رکھتے تھے خاص طور پر امرتسر اپنے پہلوانوں ، لذیذ ہریسہ و نہاری ، لکھاریوں اور کپڑا تیار کرنے والوں کے حوالے سے جانا جاتا تھا اس لئے یہاں کے افراد نے ہجرت کے وقت لاہور کے علاوہ کمالیہ ،جھنگ اور لائلپور(اب فیصل آباد)کا رُخ کیا ۔ کیوں کہ کمالیہ اور جھنگ کی کپاس ان کے ہنر کے لئے کافی خام مال فراہم کر سکتی تھی اور لائلپور سیلاب کے خطرے سے محفوظ ہونے کی وجہ سے کارخانے لگانے کے لئے موزوں تھا۔
اس پر مستزاد یہ کہ جھنگ اور کمالیہ قبل از تقسیم ہندو اکثریت کے علاقے تھے اس لئے یہاں قدم قدم پر معیاری سکول و کالج قائم تھے جس کی وجہ سے مذکورہ شہروں کے اہل علم مہاجروں کی نظرِانتخاب اس علاقے پر پڑی۔ آج بھی پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ علاقہ فیصل آباد ڈویژن ہی ہے۔ میری کہانی کا شفیع بھی انہی اہل علمی گروہوں کی کسی ایک شاخ سے تعلق رکھتا تھا۔ جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو شفیع ہو شیار پور کے ایک سکول میں استاد ہوا کرتا تھا۔ میرے والد مرحوم کے بقول شفیع ایک بہترین استاد ، غضب کا شاعر ، انگریزی میں ماہر ، قائد اعظم کا شیدائی ، اقبال کا عاشق ، تحریک پاکستان کا سرگرم کارکن ، مسلم لیگ کا ورکر ، پرجوش مقرر اور ایک قابل خطاط تھا۔ وہ سکول کے بعد بھی بچوں کو مفت پڑھاتا (ویسے اس وقت ہر استاد ہی مخلص ہوا کرتا تھا) اور اردو کی لکھائی بہتر کرنے پر خصوصی توجہ دیتا کیوں کہ وہ ایک اچھا کیلی گرافر بھی تھا۔
شفیع کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ تینوں بہن بھائی ذہین اور باپ کی طرح سے علم و ادب کے شوقین تھے۔ بڑا بیٹا 13 برس کا ، چھوٹا 11 برس کا اور بیٹی تقریبا 10 برس سے کچھ کم تھی۔ بڑا بیٹا چونکہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اورا س کے امتحان مارچ 1948 میں ہونے تھے جبکہ پاکستان اگست 1947 میں قائم ہو رہا تھا۔ وہ شش و پنج میں تھا کہ کیا کرے۔ کیا 1948 تک ہندوستان نہ چھوڑے ؟۔ اگر چھوڑے تو آباد کاری کے جھنجھٹوں کی وجہ سے اس کے تینوں بچوں کی تعلیم کا کیا ہو گا؟۔ بیوی سے مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچا کہ پہلے خود پاکستان آ کر حالات کا جائزہ لے گا تب واپس جا کر بیوی بچوں کو لے کر آئے گا۔ وہ جولائی 1947 میں کمالیہ آیا اور یہاں سے دل میں ایک اطمینان لے کر رخصت ہوا ۔ ہندوستان واپس جا کر اس نے ہجرت کی تیاری شروع کر دی۔
پورے برصغیر میں نفرت اور لوٹ مار کی جو آگ بھڑک رہی تھی شفیع کا گاوں بھی اس کی تپش محسوس کر رہا تھا لیکن یہاں ابھی تک نفرت کی کوئی چنگاری شعلہ بن کر نہیں بھڑ کی تھی لیکن سکوت کے آثار کسی بڑے تلاطم کی خبر دیتے صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ وہی ہندو ،سکھ اور مسلمان جو کل تک بھائیوں کی طرح رہ رہے تھے اب ایک دوسرے کو خوش مگیں نظروں سے گھورنے لگے تھے۔ شفیع کو ایک گونہ اطمینان اس بات کا تھا کہ اس علاقے کے سینکڑوں ہندو، سکھ اور مسلمان اس کے شاگرد رہ چکے تھے اور سبھی اس کی عزت کرتے تھے ۔ یوں قدرے ہمت لیکن ایک انجانے خوف کے ہوتے انہوں نے اپنی پاکستان جانے کی تیاری جاری رکھی۔
سرکاری ملازم ہونے کے ناطے شفیع کو ہندوستان چھوڑنے سے قبل اپنے محکمے کو آگاہ کرنا ضروری تھا اور یہی بات اس کے لئے اصل خوف کا سبب تھی، کیونکہ اس کے محکمے کے کچھ سکھ اور ہندوکلرکوں نے اس سے قبل بھی مسلمان استادوں کی ہجرت کے وقت مسلح جتھوں کو خبر دے دی تھی ۔ اگرچہ اس کے ہم کار سکھوں اور ہندوؤں کی اکثریت اس کی خیر خواہ تھی لیکن چند لوگوں کی شر پسندی کی وجہ سے مسلمان اساتذہ کے خاندانوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور ہوشیار پور تو وہ علاقہ تھا جہاں حافظ آباد ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سے ہجرت کر کے آنے والے سکھ اور ہندوآباد ہو رہے تھے اور وہ اپنی تکلیف کا بدلہ وہاں سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے لینے کے لئے بے تاب ہوئے جاتے تھے۔
پھر ایک قدرے سرد رات کو شفیع کے دروازے پر کھٹکھٹاہٹ ہوئی ۔ آھی رات کے وقت کون ہو سکتا ہے؟۔ شفیع نے یہ سوچتے ہوئے دروازے پر جا کر آنے والے کا نام پوچھا تو جواب ملا ‘استاد جی میں ہوں سوہنا سنگھ باپُو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کے پاس پیٹ درد کی پھکی ہوتی ہے وہ باپُو نے منگوائی ہے’۔ شفیع نے اپنے شاگرد کی آواز پہچان کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ سوہنا سنگھ کے ساتھ اس کے چار پانچ ساتھی دندناتے ہوئے شفیع کے گھر میں گھس گئے۔ جو کچھ ملا لوٹ لیا اور اس کے بعد اس کی دس سال کی بیٹی کی عزت کے درپے ہو گئے۔ شفیع نے بہت مزاحمت کی ۔ اس کے بیٹوں نے شور مچایا لیکن وہ باز نہ آئے۔
وہ بھالوں اور کرپانوں سے مسلح تھے اور انہوں نے اس کے گھر میں داخل ہونے سے قبل ارد گرد کے مکانوں کے باہرہی کنڈے چڑھا دئے تھے جس کی وجہ سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکا۔ دونوں بیٹے زخمی ہوئے۔ باپ کی مزاحمت جاری تھی کہ ایک حملہ آور نے شفیع کی آنکھ میں کرپان کی نوک گھسا دی اور یوں شفیع شدید زخمی ہو گیا اور اس کی انکھ ضائع ہو گئی۔۔ ماں نے آخری حربے کے طور پرایک غنڈے کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا لیکن دوسروں نے بھالوں کے وارسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسے خاموش کر دیا۔ شفیع کی پھول سی بیٹی اغواء کر لی گئی اور دو دن بعد اس کی ادھ جلی لاش گاؤں سے باہر پائی گئی۔
ایک قیامت تھی جو شفیع پر ٹوٹ گئی ۔ وہ سوہنا سنگھ کے باپ کے پاس گیا لیکن اس نے نہ صرف شفیع کو ذلیل کیا بلکہ یہ عذر پیش کیا کہ اس کا بیٹا تو کئی دن قبل سے ہی پونا میں اپنی پھوپھی کے پاس گیا ہوا ہے۔اس حملے سے اگلے دن ہی شفیع کے گاؤں کے تمام مسلمان کیمپوں کا رخ کر گئے لیکن شفیع نے محکمے سے رجوع کیا اور یوں انگریز فوجیوں کی معیت میں شفیع اور اس کے بیٹوں کو لاہور بارڈر پر لا کر چھوڑ دیا گیا۔ اس کا چھوٹا بیٹا پہلے سے ہی کچھ بیمار تھا۔
مسلسل بے آرامی کی وجہ سے بخار میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ چند دن لاہور میں گزارنے کے بعد شفیع اور اس کا بیٹا کمالیہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن اب شفیع کی ہستی ان زخموں سے اس قدر نڈھال ہو چکی تھی کہ شفیع پر بار بار ہذیانی کیفیت طاری ہونے لگی۔ جب اپنے خاندان کی بربادی کا خیال اس کے ذہن میں کوندتا تو وہ گلیوں میں نکل پڑتا اور انگریز کو ننگی گالیاں دینے لگتا ، سکھوں کی ماں بہن ایک کر دیتا ، ہندوؤں کو برا بھلا کہتا۔ جس مکان پر ہندی زبان میں نام کی تختی لگی دیکھتا اسے اینٹ سے توڑنے کی کوشش کرتا اور پھر کوئلے سے دیواروں پر اپنا نام اردو میں لکھنے لگ جاتا۔ جہاں کہیں لیٹر بکس نظر آتا اسے پتھر مار مار کر ٹیڑھا کر دیتا۔ شاید اس لئے کہ اس کی اپنے محکمے کے ساتھ خط و کتابت اس کی معصوم بچی کی عزت اور اس کی زوجہ کی جان نہ بچا سکی تھی اور وہ اسی کا غصہ لیٹر بکس پر نکالتا۔
کمالیہ آ کر اس کے اکلوتے بیٹے کو پیٹ پالنا مشکل ہو گیا۔
پاکستان بنتے ہی کرپشن اور افراتفری کا وہ دور شروع ہو گیا کہ جس کا ہاتھ پڑتا تھا کلیم اسی کو ملتا تھا بھلے وہ حق دار تھا یا نہیں ۔ لیکن شفیع تو پاگل ہو چکا تھا۔ اس کے بیٹے کی عمر بہت کم تھی۔ محض 14 برس۔ وہ ایک گھر میں براجمان ہوتے تو چند روز بعد انہیں کہا جاتا کہ یہ گھر خالی کرو فلاں کو یہ کلیم میں ملا ہے۔ تم اپنے کاغذات جمع کرواؤ۔ رشتے داروں نے بھی شفیع کی اس سلسلے میں کچھ مدد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی حکومتی اہلکار کو دیکھتے ہی گالیاں دینے لگ جاتا۔
یوں دھیرے دھیرے شفیع مکمل پاگل ہو گیا اور من چلوں نے اس کی ہذیانی کیفیت پر ہمدردی کرنے کی بجائے اسے شفیع کانا کہہ کر چھیڑنا شروع کر دیا۔
اب شفیع گلیوں بازاروں میں پھرتا تھا۔ کبھی ہنستا ،کبھی روتا ، کبھی قائداعظم کی انگریزی تقریریں سناتا ، کبھی گلستان و بوستان کی شیرینی تقسیم کرتا، کبھی سکھوں کو گالیاں دیتا ، کبھی نہرو کو صلواتیں سناتا ،پولیس کی وردی دیکھتے ہی اس کی آنکھیں ابل پڑتیں اور وہ ان پر طنزیہ نظمیں فی البدیہہ کہتا۔ لیٹر بکس کو دیوار سے اکھاڑ کر زمین پر دے مارتا۔
اس کا بچ جانے والا بیٹا جس کا نام نفیس تھا وہ ہمیشہ اپنے باپ کی پنشن اور واجبات سے محروم رہا۔ پیٹ پالنے کے لئے اس نےسکول کے بچوں کی تختیوں پر نام لکھنے کاکام شروع کیا اور چارٹس وغیرہ لکھتا لیکن ایک دن وہ ایسا غائب ہوا کہ پھر کبھی اس کی خبر کسی کو نہ مل سکی۔ اس کے غائب ہونے کے بعد شفیع زیادہ دن زندہ نہ رہا اور ایک صبح اس پچھترسالہ بد قسمت بوڑھے شفیع کی لاش صدر بازار میں ایک دکان کے تھڑے پر پائی گئی۔
میں سمجھتا ہوں کہ شفیع پاگل نہیں تھا۔ ہمارے روئیے نے اسے پاگل بنا دیا۔ وہ جس سرزمین کی خاطر اتنا پرجوش تھا اسے اس نے اپنے خاندان کے لہو سے سیراب کر کے بھی ہمت سے کام لیا لیکن اپنے خوابوں کے جزیرے میں پہنچتے ہی وہ اپنے ساتھ رکھے جا نے والے ناراوا سلوک کو برداشت نہ کر سکا۔ اکلوتا نفیس جب بے بس بوڑھے باپ کی آنکھوں کے سامنے در بدر ہوا اور آخر کار غائب ہو گیا وہ اس “پاگل” کو کیوں کر برداشت ہو سکتا تھا۔ جس قوم کو وہ اپنی قوم سمجھ کر یہاں آیا اسی نے اسے شفیع کانا کا نام دے کر ذلیل کیا ، سرچھپانے کا سہارا بار بار چھینا گیا، بار بار گھروں سے بے گھر کیا گیا۔ ایک تعلیم یافتہ اُستاد، ایک عظیم انسان صرف چند پیار اور عزت کے دو بولوں کا بھوکا ہوتا ہے افسوس پاکستان بننے کے بعد نہ تو شفیع کو پیار ملا اور نہ ہی عزت کے دو بول۔ اس طرح سے ایک ایسا شخص اپنی جان کی بازی ہار گیا جو اس وطن کو مکہ جیسا پاک اور پوتر سمجھ کر آیا تھا اور یہاں کے بسنے والو نے شہیدوں کے اس وارث کو شفیع کانا کہ کر اُسے چھیڑنا شروع کردیا۔
انیس سو سینتالیس میں دس لاکھ لوگ شہید ہوئے وہ قربانیاں نہیں تھیں بلکہ وہ پاکستان بننے کی پاداش میں شہید ہوئے۔
نوٹ: اس مضمون کے کچھ حصے محترم ساجد صاحب نے بھی فراہم کئیے ہیں۔ اُن کا میں تہہ دل سے مشکور ہوں۔