برقعہ اور بِکنی

مہناز اختر

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے فرانس میں برقعے پر پابندی کو مسلمان خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق اس طرح کے اقدامات روایت پسند مذہبی نظریات کی حامل خواتین کے فرانسیسی ماحول میں انضمام کے بجاۓ ان کی معاشرتی تنہاٸی اور خودساختہ نظربندی کی وجہ بن سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس بیانیہ کی تہہ دل سے حمایت کرتی ہوں۔ آج کل مغربی دنیا میں برقعے پر پابندی پر کافی گرما گرم بحث جاری ہےاور اسکی حمایت یا مخالفت کرنے والے فریقین کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔ اس موضوع پر ایک دلچسپ صورت حال تب دیکھنے کو ملتی ہے جب لوگ برقعے کا موازنہ bikini سے کرتے ہیں۔
عربی زبان میں ”پردہ جنین“ کو برقعہ کہتے ہیں جس کے اندر جنین حفاظت سے پرورش پاتا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمان خواتین کا وہ لباس جو انہیں سر سے پاٶں تک بشمول چہرہ چھپا لے برقعہ کہلاتا ہے۔ ”حیا اور پردہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، پردہ پاکیزہ مردوں اور عورتوں کے ایمان کی حفاظت کرتا ہے، پاکیزہ عورتوں کو پردہ میں رہنا چاہیے تاکہ وہ پرہیزگار مردوں کو شہوت سے بچاسکیں“۔ یہ نظریات اسرائیلی یہودی فرقے ”حریدی“ کے ہیں۔ یہودی حریدی فرقے اور سلفیت سے متاثر مسلمانوں کے مطابق خواتین کو سر سے پاٶں تک برقعے سے ڈھکے رہنا چاہیے۔

خواتین کی تیراکی کے انتہاٸی مختصر لباس کو ”بِکنی“ کہتے ہیں۔ بِکنی ساخت اور ساٸز میں زیر جاموں سے بھی زیادہ مختصر ستر پوش ہے۔ پیرس کے فیشن ڈیزاٸنر جیکوٸس ہیم نے 1946 میں تیراکی کے لیۓ انتہاٸی مختصر لباس متعارف کرایا اور اس لباس کو bikini کا نام دیا (بحراوقیانوس کے مارشل آٸی لینڈ کے حدود میں موجود مرجانی چٹانوں کا نام Bikini Atoll ہے)۔ اس لباس کو عوامی سطح پر کوٸی پذیراٸی نہ ملی۔ اس وقت کی تمام فیشن ماڈلز نے بِکنی کو نامناسب لباس قرار دے کر فیشن شو میں پیش کرنے سے انکار کردیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر جیکوٸس کو ایک عریاں رقص کرنے والی رقاصہ کی خدمات حاصل کرنی پڑی۔ بِکنی کو تیراکی کے لباس کی حیثیت سے شہرت ساٹھ کی دہاٸی سے ملنا شروع ہوٸی۔

لباس کا تعلق بنیادی طور پر باڈی پراٸیویسی سے ہے۔ اس لیئے انسان اپنے جسم کا کونسا اور کتنا حصہ مخفی رکھنا چاہتا ہے اس کا اختیار اسے حاصل ہونا چاہیے۔ جو خواتین باڈی پرائیویسی پر سختی سے کاربند رہنا چاہتی ہیں انکے لیئے جبری مختصر لباسی یا ترک نقاب ایک اذیت ہے۔ اسی طرح جو خواتین عریانیت کو عین فطرت سمجھتی ہیں اگر انکو نقاب پہنا دیا جاۓ تو یہ ان کے لیۓ بدترین سزا ہوگی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ برقعہ اور بِکنی کی انتہاٶں کے درمیان کی آبادی اکثریت میں ہے اور یہ آبادی لباس کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہے۔ جس طرح مغرب کی عورت کے لیۓ بِکنی تیراکی کا لباس ہے اور اسے تیراکی کے دوران ہی پہنا جاتا ہے بالکل اسی طرح مسلمان خواتین گھر سے باہر نکلتے ہوۓ برقعہ پہنتی ہیں تاکہ نامحرم مردوں کی نظروں سے خود کو محفوظ رکھا جاسکے۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم زمین پر ہومو سیپین کے ارتقاء کی تاریخ کا مشاہدہ آج بھی کرسکتے ہیں کہ ہم نے بحیثیت انسان کہاں سے اور کیسے ابتداء کی تھی۔ کہتے ہیں کہ ہوموسیپین دھرتی پر کم و بیش چالیس ہزار سال سے آباد ہیں۔ اور ان ہزارہا صدیوں میں ہم جنگلوں اور بیابانوں میں انتہاٸی سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ ہمارے اجداد نے زمین پر اپنا زیادہ وقت شکار پر گزارہ کرکے گزارا ہے۔ وہ کافی فاصلوں پر جتھوں اور گروہوں کی شکل میں زندگی گزارتے تھے اور شکار کے لیۓ سادہ اوزار بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ اسی دوران انہوں نے جانوروں کی کھالوں سے لباس تیار کرکے سردی سے بچاٶ کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ یہ تو طے ہے کہ اس وقت لباس کا تعلق آرائش یا ستر پوشی سے ہرگز نہ تھا۔ ہمارے اجداد کی ابتداٸی زندگی کا اندازہ آپ آج بھی افریقہ یا ایمیزون کے جنگلات میں بسنے والے ننگ دھڑنگ انسانوں کی زندگی کے مشاہدے سے لگا سکتے ۔ انکے یہاں حیا اور جنسیات لباس یا بے لباسی سے مشروط نہیں ہے۔ عریاں تہذیبوں کے یہ باسی بظاہر تو عریاں ہیں مگر دور حاضر کے جدید تصورِ ”عریانیت“ سے یکسر ناواقف ہیں۔

کہتے ہیں کہ زمین پر جدید سماجی تمدن اور زرعی انقلاب کی تاریخ صرف آٹھ ہزار سال پرانی ہے شاید یہی وہ وقت رہا ہوگا جب انسان میں شرمگاہوں کی حفاظت یا پراٸیویسی کا احساس جاگا ہوگا اور انسان نے خود کو جانوروں سے ممتاز کرکے سترپوشی کی طرف توجہ دی ہوگی۔ قرین قیاس ہے کہ زرعی انقلاب کے دور میں ہی انسان نے لباس کو حیا، پاکیزگی، حرمت اور پراٸیویسی کے ساتھ منسلک کیا ہوگا لیکن یہ طے ہے کہ ابتدا میں لباس اور ستر پوشی کی عیاشی صرف امراء اور اشرافیہ کو میسر رہی ہوگی۔ لباس اور ستر پوشی کا حق کس قدر حساس معاملہ ہے یہ جاننے کے لیے ہم جنوبی بھارت کی ریاست کیرالہ کے علاقے چیرتھالا کے مقامی اژہاوا قبیلے سے تعلق رکھنے والی خاتون نانگیلی کی کہانی کا جاٸزہ لے سکتے ہیں۔

چیرتھالا میں صرف اونچی ذات کی خواتین کو مکمل ستر پوشی کاحق حاصل تھا اور نچلی ذات کی خواتین کو ناف سے اوپر کوٸی کپڑا پہنے یا اوڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ برٹش سرکار کی کیرالہ آمد سے مقامیوں کو کسی حد تک چھوٹ تو ملی لیکن انگریز سرکار نے اونچی ذات والوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیۓ ازہاوا قبیلے پر ”بریسٹ ٹیکس“ لگا دیا یعنی اژہاوا خواتین کو سترپوشی کی قیمت ادا کرنی تھی۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے قبیلے کے لیۓ یہ ٹیکس ادا کرنا ناممکن تھا لیکن پھر بھی نانگیلی نے سینے کو ڈھکنا شروع کردیا۔ یہ بات جب ارباب اختیار تک پہنچی تو انہوں نے ٹیکس کی اداٸیگی کا مطالبہ شروع کردیا۔ ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے سرداروں نے نانگیلی اور اس کے خاوند کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ ذلت اور بے بسی کی انتہا پر نانگیلی نے ایک انوکھا احتجاج کیا۔ اس نے تیز دھار آلے سے اپنی چھاتیاں کاٹ ڈالی اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اسی وقت اسکی موت ہوگٸی۔ نانگیلی کے احتجاج نے انگریز سرکار کو ازہاوا پر سے ”بریسٹ ٹیکس“ کے خاتمے پر مجبور کردیا۔ نانگیلی کی حق ستر پوشی کی یہ جدوجہد تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتی لیکن مقامی طور پر نانگیلی کی کہانی زبان زد وعام ہے۔ میرے پاس اس کہانی کو سچ تسلیم کرنے کی ایک وجہ برٹش کیمرہ مینوں کی وہ تصاویر ہیں جسمیں کیرالہ کی ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ان تصاویر میں اعلی گھرانوں کی خواتین کو ساڑھی اور بلاٶز میں دیکھا جاسکتا ہے اور نواحی علاقوں کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی خواتین کے جسم کے اوپری حصے عریاں ہیں۔

جس طرح مسلمانوں کے مذہبی عقائد انہیں پردے یا ستر پوشی کی ترغیب دیتے ہیں اسی طرح اگھوری ہندو اور جین مت کے پیروکار مرد نظریہ تیاگ کے تحت اپنا لباس اتار پھینکتے ہیں۔ سترپوشی اور عریانیت دو متضاد رویے ہیں۔ مسلمانوں میں برقعہ ،حجاب اور نقاب کا مذہبی رجحان موجود ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ اسرٸیلی یہودی فرقہ ”حریدی “ اور کینیڈا میں آباد یہودی فرقہ ”لیو تہور“ اپنے ماننے والوں کو پردہ کی کی تلقین کرتے ہیں۔ ایسے ہی آج دنیا میں ایسی تنظیمیں بھی موجود ہیں جو مکمل عریانیت یا بے لباسی کو عین فطرت قرار دے کر بے لباسی کی ترغیب دے رہی ہیں اور گاہے بگاہے اس سلسلے میں مختلف پروگرامز اور واک کا اہتمام کرتی رہتی ہیں۔ مغرب میں نظریہ عریانیت کو ماننے والوں کو نیچرسٹ کہا جاتا ہے۔ اس وقت برطانیہ،فرانس،جرمنی ،کینیڈا اور دیگر ممالک میں نیوڈ ازم کے پیروکاروں کی کٸی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔

اس مضمون کا مقصد لباس اور حق سترپوشی کو مذہب سے ہٹ کر انسانی حقوق کے بنیادی زاویہ سے دیکھنا ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلمان خواتین پر برقعے کو ریاست یا خاندان کی طرف سے جبری طور پر بھی مسلط کیا جاتا ہے لیکن یہ علیحدہ موضوع ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ برقعہ پوشی کا مطلب دقیانوسی ہونا نہیں ہے اور نہ عریانیت سے انسانی عقل و صلاحیت میں کوٸی اضافہ ہوتا ہے۔ لباس یا ستر پوشی کا حق انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔ ممکن ہے کہ اقوام عالم کے درمیان لباس اور ستر پوشی کی ضرورت یا اہمیت پر اختلاف ہو لیکن انسانی شعور کا اوج کمال ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم دنیا میں موجود تہذیبوں اور ثقافتوں کا احترام کریں اور خواتین کو وہ پہنے دیں جو وہ پہنا چاہتی ہیں۔