ایک لفافہ اور سہی
وقاص احمد
سوری سوری
آپ نے وہ خبر پڑھی؟ نہیں پڑھی؟ وہی پیر افضل قادری کی معافی والی؟ چلو کوئی بات نہیں۔ چھوٹی سے خبر ہے اس لیے نظر سے چوک گئی ہوگی۔ کل ملا کر خلاصہ یہ ہے کہ دونوں بھائیوں میں کچھ “غلط فہمی” ہوگئی تھی جس کی بنا پر چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کے خلاف بغاوت، کفر اور قتل کے فتوے دے دیے اور اب اس پر معذرت خواہ ہیں۔ “غلط فہمی” کی نوعیت کچھ communication gap کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ پیر صاحب کو لگا کہ شاید بڑے بھائی نے منگو اعظم کے دبڑ دھوس کا فیصلہ کر لیا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے عمومی فرائض کے مطابق گورنمنٹ کا ناطقہ بند کر دیا۔ تب ہنگامی صورتحال میں بڑے بھائی نے پیر صاحب کو اطلاع پہنچائی کہ “ابھی نہیں بھئی” تو پھر الحمدللہ یہ معاملہ سوری سوری پر ختم ہوگیا۔
معافی بالجبر
خبر کی تفصیلات کے مطابق دونوں بھائیوں میں غلط فہمی دور ہونے کے بعد سپریم کورٹ کو “مطلع” کر دیا گیا ہے کہ پیر صاحب آپ سے بھی معذرت خواہ ہیں، آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اس معذرت کو قبول فرما لیں۔ کاش نہال ہاشمی کا نام پیر نہال قادری ہوتا یا کم از کم حسین نقی جیسے بزرگ صحافی کا سٹیٹس ہی کسی جعلی پیر جتنا ہوتا۔
مذید تفصیلات کے مطابق “رٹ والی گورنمنٹ” ابھی بھی ایسے گم صم کھڑی ہے جیسے پوچھ رہی ہو کہ حضور اجازت ہو تو کرسی پر واپس بیٹھ جاؤں؟
یوٹرن
ایک ہوتا ہے یوٹرن، جس میں بندہ دھیرے دھیرے اپنی سمت سے پلٹتا ہے۔ ایک ہوتا ہے اباوٹ ٹرن، یہ عام طور پر فوجی نوعیت کا ہوتا ہے جس میں آپ یکدم اپنی پوزیشن سے 180 ڈگری پر مڑتے ہیں اور پیچھے کی طرف دوڑ لگا دیتے ہیں
اور ایک ہوتا ہے سمر سالٹ، کچھ مداری آپ کو ٹی وی پر یہ کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں جس میں وہ ہوا میں ہی 3-4 دفعہ ایسی قلابازی لگاتے ہیں جیسے منگو اعظم اپنے بیانات پر یا کوئی بچہ کھلونوں کی دکان میں کبھی اس کھلونے کبھی اس کھلونے کی جانب لپکتا ہے لیکن فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اسے کیا لینا ہے۔
پھر ایک ہوتی ہے باندر ٹپوسنی، یہ خالصتاً پنجابی اصطلاح ہے۔ کچھ بندروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں مگر اگر راستے میں موڈ تبدیل ہوجائے تو دوسری ٹہنی کو چھوئے بنا واپس پہلی ٹہنی پر آن بیٹھتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کسی کا 100 دن میں تبدیلی والا پروگرام کینسل ہوجائے۔
تو پیارے بچو! ابھی منگو اعظم نے آپ کو “اصل لیڈر” کی صرف یوٹرن والی خصوصیت بتائی ہے۔ باقی خصوصیات کا دفاع ابھی آپ نے کرنا ہے۔
رسیدیں
دفتر کے میس میں ہم دو دوستوں کے درمیان سیاست، ریاست اور کرپشن پر گرم و گرم بحث چل رہی۔ گفتگو ابھی بیچ میں ہی تھی کہ ساتھ والے ٹیبل سے ہمارا ایک انصافی دوست بھی بیچ میں آن دھمکا۔ گفتگو میں اس نے گفتگو میں کرپشن، پبلک منی، بے نامی دار، آمدن سے زائد اثاثے، منی لانڈرنگ، رسیدیں، بیرون ملک جائیداد، این آر او، پلی بارگین اور ایمنسٹی جیسے لفظ سنے تو سیاق و سباق سمجھے بنا اس نے منگو اعظم کی کرپشن پر رٹی رٹائی تقریر ہمارے سامنے شروع کر دی۔ ہم دونوں اس نامعقولیت کو کچھ دیر برداشت کرتے رہے مگر جب تقریر کے تقریباً اختتام پر صاحب نے فرمایا کہ “ہم پٹواری نہیں، غلط کو غلط کہتے ہیں” تو میرے دوست سے رہا نہیں گیا اور بولا “یار ہم علیمہ باجی کے کیس پر گفتگو کر رہے تھے”. یہ سننا ہی تھا تو جیسے انصافی بھائی پر سکتہ طاری ہوگیا، چند سیکنڈ بعد جیسے یکدم نیند سے جاگے اور بولے، “یار مجھے زرا مینیجر کو ایک فائل بھیجنی ہے، میں ابھی آیا”.
آج ساتواں دن ہے، وہ ابھی بھی نہیں آیا۔
بھکاری
“میرا باپ مر گیا ہے، ماں کو فالج ہے علاج کے پیسے نہیں، چھوٹا بھائی ہیروئن کے نشے پر لگ گیا ہے، بہن کے سر کے بال سفید ہوگئے ابھی تک شادی نہیں ہوئی، گھر میں فاقے چل رہے ہیں، میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں اس لیے محنت نہیں کر سکتا۔ اللہ کے نام پر دس روپے دے دے بابا۔”
“میرے ملک کی مالی حالت بہت خراب ہے، معیشت تباہی کے دھانے پر ہے، ملک میں فاقے اور خودکشیاں چل رہی ہیں۔ میرے علاوہ اوپر سے نیچے تک سبھی کرپٹ ہیں۔ انصاف، احتساب کی بھی کمی ہے۔ غربت بھی بے انتہا ہے۔ ہم بیرونی دہشت گردی کا شکار ہیں اور اندرونی شدت پسندی کو بھی جھیل رہے ہیں۔ اللہ کے نام پر دس ارب دے دے بابا۔”
دونوں بھکاریوں میں ایک بات مشترک ہے۔ دونوں کی زیادہ تر باتیں جھوٹ ہوتی ہیں۔
تبدیلی کب آئے گی؟
میرے ایک دوست نے بہت بیزاری سے مذکورہ بالا سوال کیا۔ میں بولا “جس دن منگو اعظم کی تقریر میں تبدیلی آئی”
بولا “کیا مطلب؟”
میں نے کہا “یار جو بندہ دس سال میں اپنی تقریر میں تبدیلی نا لا سکا وہ سو دن میں ملک میں تبدیلی کیسے لائے گا؟”
وہ بولا “چلو دیر سے سہی، مگر تبدیلی دکھنا کب شروع ہو گی؟”
میں نے کہا “یار بولا تو ہے، جس دن تبدیلی آئے گی، منگو اعظم کی تقریر بھی کرپشن کرپشن کے راگ سے تبدیل ہوکر ایک وزیراعظم کی مانند ترقیاتی منصوبوں، داخلی خارجی پالیسیوں، قانون سازیوں، معاشی و عدالتی اصلاحات اور ادارہ جاتی حدود کے نفاذ میں تبدیل ہو جائے گی۔ جیسے کسی حد تک ان سے پچھلی حکومتوں میں تھی”.
وہ بولا “کیا یہ سب ہو گا؟”
میں بولا “اصل سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ہوگا تو کیا پھر وزیراعظم ہو گا؟”