رسول الله ﷺ اور عائشہؓ کے نکاح پرمعترضین کے الزامات کا جواب

مہناز اختر

رسول الله ﷺ کی شخصیت اور ذاتی زندگی صدیوں سے مخالفین اور متشککین کے نشانے پر ہے۔ آپ کی کثرتِ ازدواج کی سنت پر نقطہ چینی کرکہ آپ کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش بارہا کی گئی ہے۔ موجودہ دور میں آپ پر سب سے زیادہ سنگین اور شرمناک الزام آپﷺ اور عائشہؓ کے نکاح اور ازدواجی زندگی کے حوالے سے لگایا جاتا ہے۔ اسلام مخالف لوگوں نے انگریزی کے اس جملے Muhammad was a Pedophile ,he married with baby Aisha کو مسلمانوں کو شرمندہ کرنے کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ اسی جملے کو بنیاد بنا کر ہی گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کرائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عام مسلمان اس الزام کا عقلی اور تحقیقی جواب دینے کے بجائے شرمندگی سے نظریں چرا لیتے ہیں یا دفاعی پوزیشن اختیار کرکے عاٸشہ ؓ کی عمر بہ وقت نکاح اضافے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا آپﷺ پر Pedophile کی اصطلاح کا اطلاق ہو سکتا ہے؟

پیڈوفائل کی اصطلاح بچوں کی جانب جنسی رجحان رکھنے والے شخص کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ امریکن ساٸیکی ایٹرک ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ Classification of Mental and Behavioural Disorders کے مطابق Pedophilia ایک مرض ہے۔ اس میں مبتلا شخص ١٢ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کی جانب جنسی رغبت رکھتا ہے۔ ایک غلط فہمی عام ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ہر شخص کو پیڈوفائل کہا جاسکتا ہے، جبکہ ایسا ضروری نہیں ہے ممکن ہے کہ ایسا شخص اپنی جنسی بھوک کو مٹانے کے لیے بچوں کو صرف متبادل یا آسان شکار کے طور پر استعمال کرتا ہو مگر بچوں کی جانب ایسا کوٸی عمومی رجحان نہ رکھتا ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر پیڈوفائل بچوں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب رہا ہو، ہوسکتا کہ اسنے اپنے اس میلان کا عملی اظہار کبھی نہ کیا ہو۔

پیڈوفیلیا سے متعلق ماہر جنسیات کی رائے ماہرین نفیسات سے مختلف ہے۔ ماہرین جنسیات کے مطابق پیڈوفیلیا مرض نہیں ہے بلکہ ایک قسم کا جنسی رجحان ہے جیسے کے ہم جنس پرستی بھی جنسی رجحان کی ایک قسم ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی دنیا میں بچوں کی طرف جنسی رجحان رکھنے والے شخص کو نفرت سے دیکھا جاتا ہے اور ہم جنس پرستی کو سماجی قبولیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس رجحان کی عالمی سطح پرمخالفت کی وجہ بچوں کو جنسی اور معاشی استحصال سے محفوظ رکھنا ہے۔

اگر رسول الله ﷺ سے متعلق تمام روایتوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو کہیں بھی ایسا کوٸی ایک واقعہ نہیں ملتا کہ جس سے معلوم ہو کہ آپ بچوں کے حوالے سے ایسا کوٸی جنسی رجحان رکھتے تھے۔ حالانکہ اس دور میں غلام و کنیز کی خرید فروخت اور کم سنی کی شادیوں کو سماجی قبولیت بھی حاصل تھی۔ کوٸی عمل عادت یا رجحان تبھی کہلاتا ہے جب اس میں تسلسل پایا جائے۔ اس حوالے سے اگر آپﷺ کی پوری ازدواجی زندگی کو دیکھا جائے تو آپکی ازدواج مطہرات کی عمریا تو آپ سے زیادہ تھی یا پھر آپکے قریب قریب تھی۔ ازدواج مطہرات میں صرف عاٸشہ صدیقہ ؓ ہی غیر شادی شدہ اور کم سن زوجہ تھیں۔ اس وجہ سے یہ کہنا کہ رسول الله ﷺ بچوں یا بچیوں کی جانب ایسا کوٸی عمومی جنسی رجحان رکھتے تھے ایک نا مناسب اور لغو بات ہے۔

عائشہؓ کی رسول الله ﷺ سے شادی کیسے ہوٸی اور آپکی ازدواجی زندگی کیسی تھی، بی بی عائشہؓ کو ”بے بی عائشہؓ “ کہنے والوں کے مقاصد کیا ہیں ؟

عائشہؓ عرب کے ایک بااثر اور باعزت تاجر جناب ابوبکرصدیقؓ کی دوسری صاحبزادی تھیں۔ ابو بکرصدیقؓ عائشہؓ کی پیداٸش سے پانچ سال قبل ہی ایمان لاچکے تھے۔ آپ حضور کے قریبی رفقاء میں شامل تھے بلکہ آپ ﷺ اور ابوبکرؓ نے آپس میں منہ بولے بھاٸی کا رشتہ بھی قاٸم کررکھا تھا۔ اس لیے اس بات کا تو ذرہ بھر بھی امکان نہیں ہے کہ عائشہؓ کی آپﷺ سے شادی کسی جبر یا استحصال کا نتیجہ تھی۔ یہاں ایک اور نقطہ بھی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے کہ عائشہؓ حضور کے پیغام نکاح سے پہلے ہی جبیر بن مطعم کے بیٹے سے منسوب تھیں کیونکہ عربوں میں بچپن کی نسبت اور نکاح عام بات تھی ۔ محمدﷺ اور عائشہؓ کے درمیان عمر کا جو فرق تھا وہ بھی تمدنِ قدیم میں ایک سوشل نارم تھا۔ اسی وجہ سے آپﷺ کی جانب سے عائشہؓ کے لیے پیغامِ نکاح پر ابوبکرصدیق ؓ نے عمر کے فرق اور رسول الله ﷺ کے گھر پر پہلے ہی ایک زوجہ کی موجودگی کے حوالے سے کوٸی اعتراض پیش نہیں کیا بلکہ اس پیغام پر انکے سامنے دو عذر تھے، پہلا عذر یہ تھا کہ عربوں میں منہ بولے بھاٸیوں اور بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام تھا کیونکہ وہ منہ بولے رشتے کو حقیقی رشتے جیسی اہمیت دیتے تھے۔ تو اس مسٸلے کا حل تو انہیں صاحبِ شریعت کی طرف سے مل گیا کہ والد کے منہ بولے بھاٸی کی حیثیت سگے چچا کی سی نہیں ہوتی۔

دوسرا عذر یہ تھا کہ عائشہؓ پہلے سے ہی جبیر بن مطعم کے بیٹے سے منسوب تھیں۔ اس وجہ سے جناب ابوبکرؓ خود اسکی بیوی سے رشتہ کے حوالے سے بات کرنے گئے لیکن جبیر بن مطعم کی بیوی نے آگے سے انہیں یہ کہہ کر رشتہ ختم کردیا کہ تم نے اپنا دین تبدیل کرلیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ تمہاری بیٹی میرے گھر آکر میرے بیٹے کا دین بھی تبدیل کروا دے گی، وہاں سے واپسی پر ابوبکرؓ نے آپﷺ کے پیغام پر ہاں بھجوادی۔ مستند روایتوں کے مطابق نکاح کے وقت عائشہؓ کی عمر چھ برس تھی البتہ رخصتی کو بلوغت تک موخر کردیا گیا۔ بعد ازاں مدینہ ہجرت کر آنے کے بعد آپؓ شدید قسم کے وباٸی مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ علالت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپکے سر کے بال تک جھڑ گٸے۔ صحت یابی کے بعد بھی آپ انتہاٸی نحیف اور لاغر ہوگئی تھیں۔ اس صورتحال سے پریشان ہوکر ابوبکر صدیقؓ نے خود آپﷺ سے کہا ”آخر کیوں آپ اپنی امانت کو رخصت کرواکر اپنے گھر نہیں لے جاتے“ اسطرح ٩ برس کی عمر میں آپ رخصت ہوکر حضورﷺ کے گھر تشریف لے آٸیں۔ اس وقت رسول اللہﷺ کی عمر ٥٣ سال تھی۔ رسول الله ﷺ پر ایک انتہاٸی کم سن دلہن بیاہ لانے کا الزام لگانے والے اکثر ”بے بی“ عاٸشہ کی کہانی کو یہی ختم کردیا کرتے ہیں اور دلیل کے طور پر بہ وقت نکاح گڑیا سے کھیلنے والی وہ احادیث پیش کرتے ہیں جو خود عائشہؓ نے بڑے شوق ومسرت کے ساتھ روایت کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی مقام سے ہی بی بی عاٸشہ ؓ کی کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔

بی بی عائشہؓ نے زندگی کے ٩ سال رسول الله ﷺ کی رفاقت میں گزارے اور اپنی ازدواجی زندگی کی خوشحالی اور رومانویت کو حدیث کی شکل میں روایت کیا۔ عائشہؓ نے دینی تعلیم و تربیت براہ راست رسول اللہﷺ سے حاصل کی۔ آپ اپنے وقت کی فقیہہ اور مفسرة تھیں۔ بڑے بڑے صحابہؓ آپ سے مختلف مساٸل پر رہنماٸی حاصل کرتے تھے۔ خواتین کے نجی اور ازدواجی معاملات پر موجود زیادہ تر احادیث آپ سے ہی روایت کی گئی ہیں۔ صحابہؓ میں سے چھ حضرات ایسے ہیں جن سے بہت بڑی تعداد میں روایتیں منقول ہیں، ان اصحاب میں آپکا نمبر چوتھا ہے۔ آپ سے منقول روایات کی تعداد ٢٢٨٦ ہے۔ آپکی اپنی شادی اور بچپن کے تمام تر واقعات بھی آپ سے ہی منقول ہیں اور ان روایتوں میں فخر اور مسرت کے احساس کو صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔

یہ عائشہؓ کی فطری بہادری تھی کہ آپ نے اپنی جانب رسول الله ﷺ کے التفات کو فخریہ بیان کیا۔ آپؓ فرماتی ہیں ”کیا دنیا میں مجھ سے خوش نصیب کوٸی دوسری عورت ہوگی؟“ آپؓ نے ہی دنیا کو اپنی منقول روایتوں کے ذریعے بتایا کہ رسول الله ﷺ آپکو پیار سے کبھی ”عاٸش“ اور کبھی ”حمیرا“ کہہ کر پکارتے تھے، آپکے ساتھ کبھی کبھی دوڑ لگاتے تھے اور کشتی اور تلوار بازی کے مقابلے آپکو اپنی آڑ سے دکھایا کرتے تھے، آپکا جھوٹا شوق سے تناول فرماتے تھے۔ جب عائشہؓ کے کردار پر تہمت لگاٸی گئی تو رسول الله ﷺ انتہاٸی صدمے کی کیفیت میں تھے۔ وقت وفات رسول الله ﷺ کا سر آپ کی گود میں تھا اور رسول الله ﷺ کی قبر اطہر بھی آپکے حجرے میں تیار کی گئی تھی۔ حتی کے یہ عائشہؓ ہی تھیں جو قصاصِ عثمانؓ کے تنازعے پر ہونیوالی جنگِ جَمل میں حضرت علی ؓ جیسی قدآور جلیل القدر شخصیت کے آگے سینہ تانے ایک بہادر عورت کی طرح سپاہ کی کمان سنبھالے کھڑی ہوگٸ تھیں۔ عائشہؓ کے سیاسی اثر رسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قصاصِ عثمانؓ کے لیے صرف آپ ہی میدان عمل میں تشریف لاٸیں ورنہ تو اس وقت ام المومنین حفصہؓ اور ام سلمہؓ جیسی زیرک اور تجربہ کار خواتین بھی حیات تھیں۔

بی بی عائشہؓ کو ”بے بی عائشہؓ “ کہنے والوں کا مقصد آپﷺ پر ایک بچی کے ساتھ ازدواجی جبر کے الزام کو صحیح ثابت کرنا ہے لیکن اگر آپ صرف عائشہؓ سے منقول احادیث کا مطالعہ کریں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس تعلق میں ازدواجی جبر کا شاٸبہ تک نہ تھا۔ عائشہؓ نے ایک نڈر عورت کیطرح بھرپور زندگی گزاری تھی اور انہیں آپﷺ سے تعلق نکاح پر فخر تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس وقت کی کم سنی کی شادیوں کو آج کے ماحول کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سراسر حماقت ہوگی۔ اس وقت تمام دنیا میں اس روایت کو سماجی قبولیت حاصل تھی اور لوگ خود چاہتے تھے کہ انکی بچیوں کی نسبت بچپن میں ہی طے ہوجائے تاکہ بعد از بلوغت انکی رخصتی جلد از جلد کر کے احسن طریقے سے فرض ادا کردیا جائے۔