ایوانِ عدل اور اٹھتا دھواں
عابد حسین
کسی بھی معاشرے کی تباہ حالی اور خوشحالی میں عدلیہ کی ترجیحات اور عادل کے چلن کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ باشعور افراد اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایوانِ عدل کی سب سے بڑی ذمہ داری اور اولین ترجیح عوام کو فوری انصاف مہیا کرنا ہے۔ اگر اس ذمہ داری کا محلف اسے خوب انجام دے رہا ہو کسی بھی فریادی کو انصاف ملنا نہایت آسان ہو کسی قانون شکن کے ذہن پہ منصف کے عادلانہ فیصلوں کا خوف قائم ہو تو ایسی صورت میں معاشرہ بگاڑ کی بہت سی صورتوں سے بچا رہتا ہے ـ
اگر صورتحال اس کے برعکس ہو کسی مستغیث کی بروقت سنائی نہ ہو اور منصب پر فائز عہدہ دار/ذمہ دار کی ترجیحات کسی بھی حد تک انصاف مہیا کرنے کے متعلق نہ ہوں عادل کا چلن بھی کسی حد تک مشکوک یا غلط ہو تو معاشرہ دو طبقات میں تقسیم ہو کر رہ جاتا ہے پہلا طاقتور طبقہ جسے عدالت کی طرف سے کسی سزا کا خوف نہیں رہتا اور وہ اپنی من مانیاں کرتا بے لگام نظر آتا ہے جبکہ دوسرا مظلوم طبقہ جو ظلم اور زیادتی کی چکی میں پستا رہتا ہے۔
اِسی خدشے کو غلط ثابت کرنے کےلیے ہی عام طور پر عدالتوں میں یہ فقرہ اکثر زبانِ عام سے ادا ہو کر سماعتوں سے ٹکراتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب امیر(طاقتور) غریب(کمزور) برابر ہیں۔یہ عام سا جملہ دراصل عوام کے ذہن سے اس طرح کے خیالات کو رد کرنے کے کام بھی آتا ہے تا کہ عوام کو عدالتوں کی غیر جانبداری اور آزادی کا ہر حال یقین رہے اور عوام کا عدالتوں پر اعتماد بھی قائم رہےـ۔
وطن عزیز میں دوسرے شعبہ جات کی طرح ایوانِ عدل بھی بہت سی خامیوں اور کوتاہیوں کا پالک نطر آتا ہے یہاں انصاف ناپید ہرگز نہیں ہے مگر یہ عمل نہایت سست روی کا ضرور شکار ہے ـ انصاف کی راہ میں موجود اس جیسی چند اور رکاوٹوں کو دور کرنا اور اس نظام میں بہتری لانا وقت کی ضرورت ہے جن پہ صرف خاص توجہ دے کر ہم جرم کی شرح کو کافی حد تک کم کر سکتے ہیں اور حقیقی طور پر انصاف کا بول بالا کر سکتے ہیں ـ۔
کہ اگر کسی سائل کو انصاف کی دہلیز پر آنا پڑ جائے تو نسل در نسل عدالتوں میں چکر لگانے کا خوف کسی ذہن پر حاوی نہ ہونے پائے ـ مستحق افراد کے لیے سرکاری سطح پر مفت انصاف فراہم کرنے کے اقدامات کر لیے جائیں۔
خواتین اور طلباء اور معذور افراد کے کیسز کو جلدی نمٹایا جائے ـ
بلاسفیمی کے کیسز کی خصوصی سماعت کرتے ہوئے ان کا فیصلہ جلد کیا جائے تاکہ اگر کوئی بے قصور ہو تو اس کی زندگی کے کئی قیمتی سال بے جرم اسیری کی نظر ہونے سے بچ جائیں ۔
پاکستان میں عدلیہ کارکردگی اب تک ماسوائے صرف چند شخصیات کے علاوہ کہ جنہوں نے معاشرے میں عدل کو بقا دینے اور اصلاحات لانے کی ہر حال کوشش کی ـ مراعات کے آگے اپنے ضمیر کو مجبور نہ ہونے دیا ـ اپنے فیصلوں میں کسی طرح کے خوف کا شکار نہیں ہوئے ـ کبھی نام وری کے خواہشمند نہ ہوئے اور ایسی سادہ زندگی بسر کی کہ ساری عمر کرائے کے فلیٹوں میں گزر گئی ایسی روشن قندیلیں کیا بجھیں کہ پھر روشن نہ ہوئیں اور سچ میں تو ایسے افراد ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے بھی کم ہیں جن کی وجہ سے آج تک عدلیہ کا کچھ وقار بحال رہا ہے ورنہ اس کے علاوہ انصاف کے ترازو کی تاریخ کوئی قابلِ رشک بلکل نہیں ہے زیادہ تر تاریخی دور تو نظریہء ضرورت کی صورت گزارا/واری گیا ہےـ
محترم جسٹس عبدالرشید اپنی اصول پسندی کے حوالے بہت مشہور جسٹس گزرے ہیں جب *عوامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی تقریبِ حلف برداری کا اہتمام کیا گیا اور محترم محمد علی جناح صاحب اپنی خاص مقررہ نشست پر براجمان ہوئے تو جسٹس عبدالرشید نے جناح صاحب کے سیکرٹری کو اپنے پاس بلا کر اعتراض کیا کہ جناح صاحب ابھی سے گورنر جنرل کی کرسی پہ بیٹھے ہیں کیا یہ پروٹوکول کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ جبکہ اس نشست کے حقدار تو وہ حلف اٹھا لینے کے بعد ہوں گے۔
اسی طرح ایک دفعہ انہیں نواب لیاقت علی خان نے چائے پر مدعو کیا تو جسٹس صاحب نے اپنے قاصد کو سختی سے تنبیہہ کی کہ اِس قسم کی دعوتوں کو میرے نوٹس میں لائے بغیر ہی مصروفیت کا عذر پیش کر دیا کرو۔
اسی طرح جسٹس کارنیلئس جنہوں نے ساری زندگی انتہائی سادگی اور عاجزی سے گزاری ـ۔ انہیں ایک بار کونسل کے عشائیہ میں دعوت دی گئی جہاں ایوب خان نے بھی شرکت کرنا تھی جسٹس کارنیلئس نے اس وجہ سے معذرت کر لی کہ اگر مری تصویر صدر کے ساتھ شائع ہوجائے تو عوام کا عدالت پر سے اعتماد کم ہوگا اور عدالت کی غیر جانبداری بھی مشکوک ہو جائے گی اور یہ دونوں(اعتماد اور غیرجانبداری) اس (عشائیہ) سے کہیں زیادہ اہم ہیں ۔
عدلیہ کی موجودہ صورتحال پر ہونے والے اعتراضات اور اس کے حق میں پیش کی جانیوالی توجیہات اپنی جگہ درست یا غلط رہیں مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عدلیہ کے وقار پر اِن تصویروں، دعوتوں، غیر ملکی دوروں یا چندہ مہموں سے نہ فقط برا تاثر پڑ رہا ہے بلکہ ایک لحاظ سے عدالت کی غیر جانبداری اب خطرناک حد مشکوک ہو کر رہ گئی ہے اور اعتماد کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
وقتی طور پر شاید ہم اس کے نتائج کو عام سمجھ لیں مگر ایسا ہرگز نہیں ہے اگر کہیں سے دھواں اٹھتا نظر آ رہا ہو تو یہ بات سمجھنے کےلیے کافی ہے کہ ضرور کچھ راکھ ہو رہا ہے اور ہمیں سب کچھ راکھ ہونے سے پہلے فکر کر لینی چاہیئے۔