حکم ہے کہ ‘آزادی رائے’ کا منہ نوچ لیا جائے۔۔
سلمان درانی
ایوب کا پہلا پانچ سالہ دور مطلب کہ 65 کی جنگ سے پہلے پہلے کہتے ہیں کہ تاریخ کا بہترین دور رہا ہے۔ اس دور میں پاکستان کی گروتھ باقی دنیا کے مقابلے میں کسی طور کم نا تھی۔
اس دور میں امریکہ سے تجارتی و سفارتی تعلقات بھی عروج پر تھے، یہی نہیں کہ صرف امریکہ سے، پاکستان کو اس وقت دنیا سے تعلقات بنانے کی بابت سبھی سے ہاتھ ملانا تھا، مگر ان تعلقات کی بنیاد کس شے پر مرکوز تھی یہ سوال اہم ہے۔ اور یہ بھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات میں پاکستان جیسے نومولود ملک کو دو خداؤں میں سے کس کو ناراض کرنا تھا۔ امریکہ خدا کی مالش کے دور میں ملک میں کسی چھوٹی سی بھی تنقید کو اشتراکی سازش سمجھا جاتا۔
اس میں میڈیا کا کیا رول نظر آتا ہے اور ریاست کا میڈیا سے کیا رویہ رہا یہ اہم نکات ہیں۔ اشتراکی سازش والے مائنڈ سیٹ کے ساتھ چلتے ہوئے سنا ہے کہ اوائل میں تو اخبارات کے صفحات خالی آنا شروع ہوئے۔ وجہ تعلقات میں کولیٹرل ڈیمج بتائی جاتی۔
ناپسندیدہ خبر کی جگہ خالی جایا کرتی تھی۔
پھر اسی دور میں میڈیا پر براہ راست حملہ کردیا گیا۔ وہ اخبارات جو دوست ممالک سے دوستیوں کی بنیاد پر سوال اٹھایا کرتے ان پر قبضہ کرلیا گیا، مالکان، مدیران کو برطرف کرکے جیل میں ڈالا یا ملک بدر کردیا گیا۔
اب کی صدی میں ہم تعلقات کے چکر کو 180 پر تقریباً گھما چکے ہیں۔ ہم چین اور باقی دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں ڈویلپمنٹ جرنلزم کے کانسیپٹ پر میڈیا کو تیار کررہے ہیں۔ ہمیں بطور میڈیا پرسن اس بات کو مان جانا ہوگا کہ ہم اس لمحے کسی بھی تنقیدی رویے کو لے کر کامیابی کی جانب دیکھ بھی نہیں سکتے۔ سعودی سرکار جب پچھلوں کی حکومت میں آئی تو کچھ ایسا ہی نوٹیفیکیشن جاری ہوا کہ سعودی حکام کے دورے پر خاموش رہا جائے نہیں تو بغیر پوچھے اندر کرلیئے جاؤ گے۔
تحریک انصاف تب تو ٹویٹر پر سراپا احتجاج تھی اور میڈیا والوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ آج اسی تحریک انصاف کی حکومت نے ٹھیک ویسا ہی ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے ریاستی پرمپرا پوری کی اور بتایا کہ ملک ترقی کی جانب جارہا ہے، اس دور میں ہم دوست ممالک سے تعلقات پر تنقید بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ چلیں ہمیں ایوبی نوسٹسلجیا میں لیجانے کا یہ بہانہ ہی سہی۔۔
آپ بھی حالات بہتر ہونے تک رام رام کیجئیے اور رات کو دن رپورٹ کرتے ہوئے بہترین اور مثبت انسان ہونے کا ثبوت دیجئیے۔ مجھے بھی معاف کیجئیے گا، میرا کہا سنا ایسے بھول جائیے گا جیسے آپ یہ بھول گئے کہ آپ نے کل رات میں کیا کھایا تھا۔ پاکستان میں ترقی کا دور دورا ہے، ہمیں اس رنگ میں بھنگ بالکل نہیں ڈالنی۔ ان حقیقتوں کے ادراک کے لئیے ہمیں کسی ڈنڈے کا ڈر نہیں ہے۔ ہم آزاد شہری ہیں۔ بے شک، بالکل آزاد۔۔ لیکن صرف اپنے کسی بھی اظہار تک، رائے کے اظہار کے بعد کی آزادی کو کس نے دیکھا۔ حکم آیا ہے کہ آزادی رائے کا منہ نوچ لیا جائے۔