ہم سب غدار ہیں
مہناز اختر
میں نے ماہ رمضان میں اپنی پوری توجہ مثبت خبریں دکھانے والے چینلز سے نشر کی جانے والی رمضان ٹرانسمیشن پر مبذول کر رکھی تھی کہ اچانک کئی چینلز کی ایک جیسی بریکنگ نیوز کی یلغار نے مثبت ذہنی کیفیت کے سکون کو غارت کردیا۔ کم و بیش سارے ٹی وی چینلز ایک جیسی سرخیاں چلاتے رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک مسلح اور پرتشدد گروہ نے شمالی وزیرستان کے فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کردیا ہے جواباً پاک فوج نے بھی بھر پور کاروائی کی۔ اس پرتشدد گروہ کے سربراہ علی وزیر کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور محسن داوڑ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ محسن داوڑ سمیت کئی رہنما سوشل میڈیا کے ذریعے پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کو مشتعل کررہے ہیں اور غیر ملکی میڈیا کو پاکستان مخالف انٹرویو دے رہے ہیں۔
آغاز سے لے کر اب تک میری پشتون تحفظ موومنٹ کی اخلاقی حمایت کی بنیادی وجہ اس تحریک کا پرامن ہونا اور آئینی حقوق کا مطالبہ کرنا تھا۔ کیونکہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہم نے خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات سے پختون مہاجرین کے علاوہ بس دو ہی چیزیں یعنی طالبان اور شریعت کو کراچی آتے دیکھا ہے۔ ان حالات میں قبائلی علاقہ جات سے اٹھنے والی آئینی حقوق کی تحریک نے مجھ جیسے کافی لوگوں کو حیرت میں ڈال رکھا تھا کہ یہ کس قسم کے سلجھے ہوۓ پختون ہیں کہ جن کے کاندھوں پر نہ ہی خطرناک ہتھیار ہیں اور نہ ہی یہ طالبان کی خونی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ میں یا پھر اس تحریک کے مجھ جیسے اخلاقی حمایتی جو اب تک ایک پرامن تحریک کی حمایت کا سیاسی اور اخلاقی جواز محفوظ رکھتے ہیں۔ اس خبر کے نشر ہونے کہ بعد ایک لمحے کو یہی اخلاقی جواز متزلزل ہوگیا تھا یا شاید یہ پورا منصوبہ تیار ہی اس لیۓ کیا گیا تھا کہ اس تحریک کو جمہوریت پسند پاکستانیوں کی اخلاقی حمایت کے جواز سے محروم کردیا جائے۔
وہ تو بھلا ہو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی نعمت کا جو کم از کم ہمیں تصویر کا دوسرا رخ تو دکھاتی رہی۔ منظور پشتین سمیت اس تحریک سے وابستہ دیگر افراد سوشل میڈیا پر اپنا مؤقف دیتے رہے اور مختلف ویڈیوز کے ذریعے حقائق کا دوسرا رخ بھی دکھاتے رہے۔ اس دوران مین اسٹریم میڈیا اور مین اسٹریم پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف نفرت کی آگ میں گھی ڈالنے کا کام ہمارے محب وطن ادارے، ٹی وی چینلز اور اینکرز کرتے رہے۔ دوسری جانب مقامی افراد کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ کے افراد ریاستی جبری پالیسیوں کے خلاف پہلے سے جاری دھرنے میں شرکت کے لیۓ جارہے تھے۔ رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو اسی گروہ کے ساتھ مل کر دھرنے میں شامل ہونا تھا۔ جب یہ گروہ چیک پوسٹ کہ نزدیک پہنچا تو چیک پوسٹ پر موجود سپاہیوں نے انہیں آگے جانے سے روکا اور نہتے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کئی نہتے مقامی افراد جاں بحق ہوگۓ۔ محسن داوڑ کو کئی روزسے محاصرے میں رکھا گیا تھا بعدازاں مقامی جرگے سے مشاورت کے بعد انہوں نے گرفتاری دے دی ہے۔ محسن داوڑ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور وہاں سے انہیں پانچ دن کے ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ محسن داوڑ پر قتل، اقدام قتل، دہشتگردی، کارسرکار میں مداخلت اور غیر قانونی اجتماع کے انعقاد جیسے سنگین الزامات لگاۓ گۓ ہیں۔
پاک فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ کے مابین چلنے والی سنگین کشمکش کے دوران چیک پوسٹ پر حملے کے ناخوشگوار واقعے کا منصوبہ شاید پیشگی تیار کیا جاچکا تھا لیکن کس فریق نے تیار کیا یہ کہنا مشکل ہے۔ دیکھا جاۓ تو دونوں فریق اس واقعے کو اپنے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کریں گے۔ ایک طرف فرشتہ زیادتی قتل کیس پر گلالئی اسماعیل کی جذباتی مگر اشتعال انگیز تقریر بہت سارے سوالات اٹھا رہی ہے کیونکہ اب تک ہر مشکل اور کٹھن راستے سے گزرنے کے باوجود بھی پشتون فوج مخالف لیکن پرامن تحریک چلا رہے تھے۔ ایسے میں گلالئی اسماعیل نے بے حد مشکوک طریقے سے فرشتہ زیادتی کیس کی آڑ لے کر پشتونوں کی غیرت کو للکارا اور انہیں مشتعل کیا اور پاک فوج کی جانب سے پختونوں کے خلاف جنسی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگایا۔ ایسا الزام اب تک خود پختون تحفظ موومنٹ کی جانب سے بھی نہیں لگایا گیا ہے۔ دوسری جانب میجر جنرل آصف غفور کی 29 اپریل کی پریس کانفرنس بھی پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے فوج کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اشارہ دے رہی تھی جس میں اس تحریک اور اسکے سرکردہ رہنماؤں پر نام لے کر سنگین الزامات لگاۓ تھے اور یہ تاریخی الفاظ کہے گئے تھےکہ ’’جب جنگ ہوتی ہے تو اس میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں، جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، جنگ بڑی بے رحم ہوتی ہے ‘‘
بہرحال اتنی سنگین اور نازک صورتحال کے بعد ایک اچھی اور امید افزا خبر آئی تھی کہ سینیٹ کی خصوصی ثالثی کمیٹی کے اجلاس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے وفد نے منظور پشتین کی سربراہی میں شرکت کی ہے۔ شکر ہے کہ اب بھی بات چیت کا دروازہ کھلا ہے۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے بہترین کردار ادا کیا اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے لیکن کاش یہ سیاسی جماعتیں اس روز علی وزیر اور محسن داوڑ کا ساتھ دیتیں اور انہیں فوج کی جانب سے لگاۓ گۓ سنگین الزامات کا جواب دینے کا پورا موقع فراہم کیا جاتا، جس روز علی وزیر قومی اسمبلی میں الزامات کا جواب دے رہے تھے اور دس منٹ کے بعد ان کا مائیک بند کردیا گیا تھا، تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ اگر منظور پشتین اور اس تحریک کے دیگر نمائندوں کے بیانیے کو آغاز سے ہی مین اسٹریم میڈیا پر آنے دیا گیا ہوتا تو شاید معاملات اتنے خراب نہ ہوتے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دو قومی اسمبلی اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر کو اسمبلی میں اپنی بات کہنے کا موقع دئیے بغیر پی ٹی آئی کے علی محمد ان دونوں کی قومی اسمبلی کی رکنیت کی منسوخی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ دوسری طرف کا بیانیہ عوام تک پہنچنے سے روکا جارہا ہے۔ سوال اٹھانے والوں کو غداری کے سرٹیفیکٹ تقسیم کیۓ جارہے ہیں۔
کہنے کو تو اس وقت ملک میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ فوج کا ادارہ وفاق اور وزارت داخلہ کے ماتحت ہے لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی ہم نے دیکھا کہ ایک فوجی ترجمان طویل پریس کانفرنسوں میں قوم کو ایک مخصوص بیانیہ فراہم کررہا ہے۔ جس پر اعتراض غداری کے مترادف ہے۔ پورے معاملے میں حکومت اور سیاسی نمائندوں نے سلیمانی ٹوپی اوڑھ رکھی تھی تو پھر کیوں نہ کہا جاۓ کہ پاکستان میں دراصل مارشل لاء رائج ہے۔ فوج قوم کا ادارہ ہے، قوم فوج کی رعایا نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ادارے اور حکومت کے درمیان طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے۔ حکومت فوج کی سہولت کار بن کر فوج سے مختلف بیانیے کو ہر ممکن طریقے سے کچلنے کی کوشش کررہی ہے۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ حالیہ واقعے میں فوج کے ہاتھوں اتنے سارے شہریوں کی ہلاکت ہوجاۓ یا وہ زخمی ہوجائیں اور فوج سے کوئی جواب طلبی کرنے والا بھی نہ ہو۔ بجاۓ یہ کہ حکومت اس واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیۓ کوئی کمیشن بناتی یہاں تو حکومت جانبداری کے ساتھ جمہوری اور سیاسی بیانیے کو رد کر رہی ہے۔ آج بھی وزیر مملکت علی محمد نے اسمبلی کے فلور پر انتہائی فلمی انداز کی تقریر میں سواۓ اپنی جماعت اور ہمنوا آوازوں کے سب کو غدار قرار دے دیا۔ صرف اس لیۓ کہ یہ آوازیں محسن داوڑ اور علی وزیر کو اسمبلی میں پیش کیۓ جانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔