ایکس ٹینشن
وقاص احمد
پاکستان کی ماضی قریب کی وہ تاریخ جو میرے ہلکے پھلکے سیاسی شعور کے زمانے میں گزری ہے اس میں ملک دو تین مواقع پر ہی “نازک صورتحال” سے گزرتا ہے۔
اول، جب کینیڈا میں بیٹھے کسی شخص کو اچانک بہت تیز انقلاب آ جائے۔
دوئم، جب آبپارہ کے کسی رہائشی کو اچانک اسلام خطرے میں نظر آئے۔
سوئم، جب پنڈی میں بیٹھے کسی رہائشی کو اپنی ملازمت میں توسیع مطلوب ہو۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے صدقے اور خاں صاحب کی شاندار اور بے باک قیادت کی بدولت پہلی دو نازک صورتحال تو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوچکی ہیں۔ قائد انقلاب کینیڈا میں خوش و خرم ہیں اور محافظ اسلام جیل یاترا کے بعد سمجھ چکے ہیں کہ ہزار ہزار روپے میں جس “خطرے” کے مقابلے کے لیے انہوں نے فیض آباد میں فساد برپا کیا تھا، وہ خطرہ اسلام کو نہیں بلکہ کسی اور کو تھا۔ عقل آتے آتے ہی آتی ہے، خیر پاکستان کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ یہ 22 کروڑ افراد کا ایک ایٹمی ملک صرف اور صرف ایک 22 ویں گریڈ کے سرکاری ملازم کی ملازمت میں توسیع کے معاملے کی وجہ سے نازک موڑ پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں اس کے ہم پلہ 22 گریڈ کے افسر کا کوئی نام تک نہیں جانتا۔ خیر خاں صاحب چونکہ حکمت و دانائی کا منبع ہیں لہٰذا انہوں نے ملک کو اس ’’نازک صورت حال‘‘ سے بھی بہت مہارت سے بچا لیا۔
یار لوگ کہتے ہیں کہ ’’افسر خاص‘‘ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ 18 اگست 2018 کو ہی ہوگیا تھا لیکن اعلان میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ اعلان میں اس تاخیر کی وجہ یہ مخمصہ تھا کہ توسیع سال کی ہو یا تین سال کی۔ گویا توسیع طے تھی بس مدت ملازمت طے نہیں تھی۔ خاں صاحب اپنی فطری تساہل پسندی میں اس معاملے کو لٹکاتے رہے اور “افسر خاص” مروت میں اپنے منہ سے بھی کچھ نا کہہ سکے کہ ان کی اپنی ڈاکٹرائن میں ان کو کتنے عرصے کے لیے پاکستان کے لیے ناگزیر تصور کیا گیا ہے۔ دونوں دوست اسی دید لحاظ میں چپ رہے حتیٰ کہ دونوں کے مشترکہ دوست اعلیٰ حضرت ڈونلڈ ٹرمپ صدر ریاستہائے امریکہ نے دونوں کو امریکہ بلوایا۔
خاں صاحب سے خوب ہنس ہنس کر باتیں کیں اور ہمارے سادگی کے شہنشاہ اسی گرمجوشی کو ہی ورلڈ کپ کی فتح سمجھ بیٹھے جبکہ دوسری طرف “افسر خاص” کو 21-22 توپوں کی سلامی دی گئی۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ خاں صاحب اتنے سادہ طبیعت اور منکسر المزاج ہیں کہ اصل میں توپوں کی سلامی انہیں ملنی تھیں لیکن انہوں نے اپنے لائق ماتحت کی حوصلہ افزائی کے لیے سلامی انہیں دلوا دی۔ لیکن واضع رہے کہ یہ یار لوگوں کا بیان ہے، دشمنانِ عمران دبی دبی سی مسکراہٹ میں اس بات کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ خیر توپوں کی سلامی وصولنے کے بعد “افسر خاص” نے امریکہ میں اپنی ڈاکٹرائن پر پریزینٹیشن دی۔ خاں صاحب لمبے سفر کے بعد چونکہ تھک چکے تھے اس لیے افسر خاص نے 4 دن بعد انہیں کہہ دیا کہ سر آپ جاکر آرام کریں، باقی معاملات میں دیکھ لوں گا۔ خاں صاحب اپنے فرض شناس ماتحت کی اس بات سے بہت خوش ہوئے۔
بعد میں افسر خاص نے امریکہ میں بیٹھے وڈے افسران کو بتایا کہ وہ شرم لحاظ میں کہہ نہیں پا رہے لیکن ان کے اپنے ڈاکٹرائن کے مطابق ان کا تین سال مذید رہنا اس نظام دنیا کو چلائے رکھنے کے لیے اشد ضروری ہے۔ امریکہ میں وڈے افسران سے ہمارے افسر خاص کی کیا گفتگو ہوئی وہ سمجھنے کے لیے ذیل میں دی گئی ویڈیو دیکھیں کہ ہمارے ماضی و حال کے افسران خاص اپنی تعیناتیاں اور توسیع کیسے اور کہاں سے کرواتے ہیں۔ (ویڈیو لنک)
دروغ برگردن جنرل حمید گل، مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کا آرمی چیف امریکہ کہ منظوری سے لگتا ہے۔ قارئین گرامی خصوصاََ حب الوطنی کی ایک مخصوص تشریح والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنی دشنام طرازیوں اور فتویٰ بازی کی گولہ باری کا رخ ان افسران خاص کی جانب رکھیں جن کا حوالہ اوپر دیا گیا۔ راقم ایک غریب فقیر مسکین اور بے ضرر انسان ہے۔ راقم کو تو دو سابقہ افسران خاص کی بدولت ہی امریکہ کے تعیناتیوں اور توسیع کے معاملات میں کردار کا معلوم ہوا ورنہ راقم کے کوئی “باخبر اندرونی ذرائع” موجود نہیں۔
خیر بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ بتا میں یہ رہا تھا کہ ہمارے صادق و امین، ریاست مدینہ دوم کے والی نے قرآن پاک کے حکم کے عین مطابق احسان کا بدلہ احسان سے چکانے کا “اصولی فیصلہ” آگست 2018 میں کر لیا تھا۔ صرف مدت توسیع طے نہیں ہو پا رہی تھی وہ مسئلہ امریکہ نے حل کروا دیا۔ شرارتی یار دوست کہتے ہیں کہ احسان کا بدلہ تو ایک بہانہ ہی تھا، اصل میں پہلے تین مہینے نوکری کرنے کے بعد ہی ذہین خاں صاحب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ گھر بیٹھ کر ابے کے خرچے پر روٹیاں توڑنے اور خود کما کر کھانے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ خاں صاحب نے تو کرکٹ کھیلنے کے علاوہ کبھی کوئی کام کیا نہیں تھا اوپر سے غلط فہمیوں میں اٹھائے گئے اقدامات نے سب کچھ چوپٹ کر دیا۔
مثلاً سیلیکٹرز کا خیال تھا کہ حکومت و معیشت چلانا باؤلنگ کرنے کی طرح آسان کام ہے سو خاں صاحب یہ کر لیں گے۔
خاں صاحب کا خیال تھا کہ اسد عمر معیشت کا چیتا ہے وہ سب سنبھال لے گا اور خارجہ پالیسی جو ہمیشہ سے چلا رہے ہیں وہ ہمیشہ کی طرح “کامیابی” سے چلاتے رہیں گے جبکہ میرا کام صرف قرضے اور چندے مانگنا ہوگا جس میں میری مہارت ہے۔
اسد عمر کا خیال تھا کہ خاں صاحب کی نگاہ مرد مومن، بے باک قیادت، بے داغ کردار اور سپریم کورٹ سے تصدیق شدہ صداقت و امانت کا سرٹیفیکیٹ ہی حکومت چلانے کے لیے کافی ہے۔
بات تو تب کھلی جب سیلیکشن کے بعد تینوں ایک ٹیبل پر بیٹھے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے کہ اب کیا کریں۔ کافی تو تو میں میں کے بعد نکے نے صاف صاف کہہ دیا کہ ابا جی میں نے گھر میں کبھی اٹھ کر اپنے ہاتھ سے پانی کا گلاس نہیں پیا اور آپ نے مجھے دکان پر بٹھا دیا۔ میں نہیں کرسکتا۔ ابا جی کی بھی پدرانہ شفقت نے جوش مارا اور نکے کو کہہ دیا کہ بیٹا بس تو روز صبح سے شام دکان پر جایا کر، کام کی ٹینشن نا لے، میں دیکھ لوں گا۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لوگوں کا کیا ہے کچھ بھی بولتے رہتے ہیں، آپ بس اس بات کا خیال رکھیں کہ صرف وہی سنیں جو آپ سننا چاہتے ہیں، اگر کوئی اس کے علاوہ فالتو بات کرے تو فوری طور پر غداری، ملک دشمنی، فوج دشمنی، کفر، قادیانی، انڈین ایجنٹ یا کوئی بھی متعلقہ فتویٰ صادر کر دیں۔ لیکن مجھے بس ایک افسوس ہے اور یہ تحریر اس افسوس کے اظہار کے لیے ہی لکھی گئی ہے۔
نہیں، آپ غلط سمجھے، میں آپ کو حسب معمول خاں صاحب کے پرانی تقاریر سے افسران خاص کی توسیع ملازمت پر ان کے خیالات سے مستفید نہیں کرنے لگا۔ نا ہی میں وہ باتیں دہرانے لگا ہوں کہ کسی کی ملازمت میں توسیع سے خاں صاحب کے مطابق ادارے کیسے کمزور ہوتے ہیں۔ نا میں خاں صاحب کی اس تقریر کا حوالہ دینے لگا ہوں جس میں وہ زرداری صاحب کے دور کے افسر خاص کی مدت ملازمت میں توسیع کی ممکنہ وجوہات سے ہمیں آگاہ کر رہے تھے۔ نا ہی مجھے ان بیسیوں قابل جونئیر افسران خاص سے کوئی دلی ہمدردی ہے جو اس تین سال کی اضافی مدت کے دوران اس ادارے کی سربراہی کرنے کی خواہش دل میں لئے ریٹائر ہوجائیں گے جس میں انہوں نے 30 سال خدمات سرانجام دیں۔
میرے افسوس کی وجہ وہ بیانیے ہیں جو اس توسیع کے بعد تھرڈلے دانشوروں، گالیاں اگلتی سوشل میڈیائی مخلوق یہاں تک کہ میڈیا کہ چند سنجیدہ سمجھے جانے والے صحافیوں کے ذریعے پھیلائے جارہے ہیں۔ الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
اس توسیع پر بھارت بلبلا اٹھاہے، بھارت اور بھارت نوازوں کی تکلیف عیاں ہے۔ اس توسیع سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سنجیدگی دنیا کے سامنے مذید آشکار ہوگی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو تقویت ملے گی۔ پاکستان دہشتگردی کے جن اندرونی چیلنجز سے نپٹ رہا ہے وہ تسلسل برقرار رہے گا۔ خطے کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں یہ توسیع اشد ضروری تھی۔
کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ ان جملوں کا واضع اور دو ٹوک مطلب کیا ہے؟ اس بیانیے کا سیدھا، دو ٹوک اور واضع مطلب یہی ہے کہ باجوہ صاحب کے بعد آنے والے جرنیلوں کی ممکنہ تعیناتی پر بھارت میں خوشیوں کے شادیانے بجتے۔ نیا سربراہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیتا یا بھارتی خواہشات کے مطابق حل کرنے میں مدد دیتا۔ نیا سربراہ آنے سے دنیا کو لگتا کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ نیا آنے والا سربراہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو روک دیتا اور دہشتگردوں کو محفوظ نرسریاں فراہم کرتا۔ مذید برآں یہ کہ خطے کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے اور اس پر حکمت علمی بنانے کی جو صلاحیت باجوہ صاحب کے پاس ہے وہ آنے والے کسی بھی دوسرے شخص کے پاس نہیں تھی۔ بالفاظ دیگر، باجوہ صاحب کے تمام ماتحت نااہل، نالائق، کم فہم اور نا تجربہ کار تھے جبھی مجبوراََ خاں صاحب کو توسیع کا کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔
بات یہ ہے بھائی، بات صاف کرنی چاہیے۔ آپ باجوہ صاحب کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گنگناتے پھریں “تو مجھے قبول میں تجھے قبول” یا پھر انگریزی کا محاورہ دہراتے جائیں “You scratch my back, i’ll scratch yours” جو بھی کریں، مگر برائے مہربانی یہ کہانیاں مت سنائیں کہ فوج کا ادارہ اتنا بانجھ، اتنا نااہل، اتنا نالائق اور آپ کے الفاظ میں اتنا مشکوک ہے کہ باجوہ صاحب کے بعد اس کو کوئی محب الوطن، قابل، ذہین اور پرخلوص سربراہ نہیں مل سکتا تھا۔ اپنا گند اپنے تک محدود رکھیں، ادارے کو اور اس کے افسران کو ذلیل مت کریں۔