یہ کیسی غیرت ہے؟
حسن مسعود
تاریخ، 6 اپریل 1999 سمیہ سرور نامی خاتون کو “کالجوں کے شہر” لاھور میں ان کے اہل خانہ نے اپنے کزن سے خلع لینے کے باعث قتل کردیا۔ تاریخ، 27 اپریل 2009 پشتون گلوکارہ ایمن اداس کو ان کے بھائیوں نے پشاور میں قتل کردیا۔ ان کا قصور ایک قدامت پسند پختون معاشرے میں گلوکارہ ہونا تھا۔ تاریخ، 27 مئی 2014 لاہور ہائی کورٹ کے باہر فرزانہ اقبال نامی حاملہ خاتون پر ان کے اہل خانہ نے حملہ کیا اور انہیں بے دردی سے قتل کردیا۔ انہیں پسند کی شادی کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ تاریخ، 15 جولائی 2016 فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو ملتان میں ان کے بھائی نے قتل کر دیا۔ ان کا جرم ایک روایتی پاکستانی معاشرے میں سوشل میڈیا پر اپنے جذبات و احساسات کو بنا کسی ڈر و جھجھک کے بے باکی سےپیش کرنا تھا۔
درج بالا واقعات ایک ہی کہانی دہراتے نظر آتے ہیں، غیرت کے نام پر قتل کی بھیانک کہانی۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کے ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس قدر وسیع پیمانے پر اس طرح کے واقعات رونما ہونے کی وجوہات بہت سادہ ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مرد کو گھر کے ہر معاملے میں عورت سے برتر سمجھا جاتا ہے، عورت کے لئے خود سے روا رکھی جانے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا یا اپنے خاندان کے مردوں کی مرضی و منشاء کے خلاف جانا ایک گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اگر عورت کچھ خوش قسمت ہو تو وہ اس “نافرمانی” کے بعد جسمانی تشدد کا شکار نہیں ہوتی۔ اس صورت میں بھی اس کے لئے عام زندگی گزارنا تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے۔ قدامت پسندانہ سوچ کے حامل اہل خانہ اسے ذہنی طور پر شدید اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔
سامعہ، ایمن، فرزانہ اور قندیل غیرت کے نام پر قتل کے یہ واقعات میڈیا کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کے باعث عوام کی توجہ حاصل کر پائے۔ اس کے برعکس ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی عورت اتنی سماجی توجہ حاصل نہیں کر پاتی۔ وجہ بہت سادہ سی ہے، دیہی طبقے کی اکثریت فی الوقت سوشل میڈیا کی طاقت سے ناواقف ہے۔ نیز دیہی علاقوں میں ایسے معاملات کو پولیس کے پاس لے جانا ناخوشگوار عمل سمجھا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں جاگیرداروں اور زمینداروں کا پولیس افسران پر اثر انداز ہونا بھی ایسے واقعات عمومی طور پر رپورٹ نہ ہونے کی وجہ ہے۔
اس مسئلے کی حساسیت کے باعث حکومتی سطح پر بھی اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اگرچہ کوششوں کے باوجود کیسز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی ہے۔ حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے 2014 میں حکومت پنجاب نے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن کا کام خواتین کو بااختیار بنانا اور خواتین کے خلاف ہر طرح کے تشدد کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنا تھا۔ مختلف اقسام کے مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود اس ادارے کی کارکردگی 2 سے 3 سال تک شاندار رہی لیکن مملکت خدادا پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح اس کی کارکردگی بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنزلی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ سماجی کارکنوں نے بھی اس گھناؤنے عمل کے خلاف مزاحمت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں عاصمہ جہانگیر اور ان کی بہن حنا جیلانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے سے متاثرہ خواتین کو قانونی امداد کی فراہمی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا۔ دیگر کئی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھی غیرت کے نام پر قتل کے اس قبیح فعل کے مکمل خاتمے کے لیے پیش پیش رہے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے اس ظالمانہ اقدام کے تدارک کے لیے حکومت کو حکومت کو غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ گھناؤنا فعل محض اس لئے سرانجام نہیں دیا جاتا کہ ان کے قوانین اسے انتہائی قابل سزا جرم سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس جرم کا ارتکاب تب تک کم نہیں ہو سکتا جب تک حکومت کی جانب سے مجرمان کے لیے سخت سزائیں مقرر نہ کی جائیں اور سزاؤں کے نفاذ میں کسی قسم کی غفلت نہ برتی جاۓ۔ میڈیا کو اس سلسلے میں عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ظالمانہ اقدام کو اجاگر کرنے والی فلمیں، ڈرامے اور دستاویزی فلمیں معاشرے کے ان سخت گیر اور روایتی عناصر کی حوصلہ شکنی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جو ایک بااختیار اور خودمختار عورت کا مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں۔