8 اکتوبر پھر نہ آنا!
شیزا نذیر
ہماری یونیورسٹی انتظامیہ اعزازی طور پر ہر سمسٹر کے آخر میں پروفیشنل لوگوں کے لیکچر رکھا کرتی تھی۔ ان پروفیشنل افراد سے وہ سب کچھ سیکھنے کو ملا جو پروفیشنل اساتذہ سے کبھی نہیں مل سکتا تھا (یہ کہنے کا مطلب اساتذہ کی اہمیت کم کرنا ہرگز نہیں ہے). ان پروفشنل لیکچرز میں ریڈیو پاکستان کے سر مظہر کے لیکچرز بھی تھے۔ آپ نے ایف ایم ریڈیو کو کلچر دیا۔ آپ ریڈیو پاکستان کی طرف سے ایبٹ آباد ریڈیو کے لیے مقرر کیۓ گئے تھے۔
وہ طالب علمی کا زمانہ تھا اور اس دن ہم صبح سے لیکچر لے لے کر تھک بھی چکے تھے۔ جب سر مظہر کی باری آئی تو میرا دماغ سننے سمجھنے سے بالکل قاصر ہو چکا تھا۔ میں نے اپنی دوست سے کہا “سر کی آنکھیں دیکھو یوں لگتی ہیں کہ جیسے گرل فرینڈ پر حد سے زیادہ اعتماد اور محبت کی لیکن وہ چھوڑ گئی اور لگتا ہے کہ زخم خاصا تازہ ہے”۔ سر کی پر نم آنکھوں میں دل کو دہلا دینے والا کرب تھا۔ میں حیران تھی کہ کسی کی آنکھوں میں اتنا کرب کیسے ہو سکتا ہے۔ دراصل میں ان کی طرف دیکھ نہیں پا رہی تھی اس لیے اپنے آپ کو نارمل کرنے کے لیے میں نے اپنی دوست سے سر کی آنکھوں کے بارے میں اپنی سی تشریح کر ڈالی۔ بریک کے بعد زیادہ تر طالب علم باہر چلے گئے لیکن میں، میری دوست اور چند طالب علم کلاس میں بیٹھ کر نوٹس پر باتیں کرنے لگے۔ عموماً لیکچرار بھی بریک میں باہر چلے جاتے تھے لیکن کسی نے سر سے سوال پوچھ لیا۔ سوال دلچسپ تھا تو ہم سب متوجہ ہو گئے اور پھر سر کی کرب ناک آنکھوں کی نمی کا راز معلوم ہوا۔
اکتوبر8، 2005 کے زلزلے میں سر مظہر کے دونوں بچے (مجھے ان کی عمریں یاد نہیں لیکن دونوں پرائمری سے آگے ہی تھے) زلزلے میں اپنے گھر کی چھت گرنے سے ملبے کے نیچے دب کر انتقال کر گئے تھے۔ سر نے ہمیں اپنی بیٹی کی کلاس فیلو کا اخبار میں چھپنے والا آرٹیکل “8 اکتوبر پھر نہ آنا” دکھایا۔ ایک شخص جس کی دنیا ہی لٹ گئی ہو اس کی آنکھیں کیسے کرب ناک نہ ہوتیں۔ مجھے آج تک سر کی آنکھوں کے بارے میں اپنی پہلی اسٹیٹمنٹ پر افسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں ایف ایم 101 میں سر سے ایک دو بار ملی اور اس دوران معلوم ہوا کہ وہ دوبارہ ایبٹ آباد ریڈیو جوائن کرنا چاہتے ہیں۔ ہم لاہور ایف ایم کے ایم ڈی کے آفس میں بیٹھے تھے تو وہ کہنے لگے کہ میں نے ان کو منع کیا ہے کہ وہ دوبارہ ایبٹ آباد نہ جائیں کیونکہ سرمظہر کی مسز اس ٹروما میں کئی سال رہیں تھیں اور حال ہی میں کچھ نارمل ہوئی ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ اسی جگہ پر گھر دوبارہ بنایا جائے جس گھر میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ اولاد کا دکھ بیان سے باہر ہے۔ پچھلے سال میرے ایک محترم دوست کے اکلوتے نوعمر بھانجے کا ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا اور میرے چیف ایڈیٹر کے بھائی کے اکلوتے بیٹے کا بھی ٹریفک حادثے میں انتقال ہوگیا ہے۔ میرا رب ایسے تمام والدین کو صبر عطا فرمائے۔
تمام خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ ٹریفک قوانین کا خیال رکھیں۔ آپ کی چھوٹی سی غلطی سے کسی کی دنیا اجڑ سکتی ہے اور آپ کی آنکھیں بھی ہمیشہ کے لیے ایک کرب ناک منظر قید کر سکتی ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا تو ہم سب کی ذمے داری ہے۔ آپ نے ہماری سڑکوں کے حالات تو دیکھے ہی ہوں گے۔ ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے۔ میں حیران ہوتی ہوں کہ سال ہا سال ضائع کرنے والے لوگ ایک منٹ بھی روڈ پر لیٹ ہونا نہیں چاہتے۔ ہر کام کا ذمے دار حکومت کو ٹھہرا دینا عقل مند اقوام کی نشانی نہیں ہے۔
جب لاہور میں موٹر سائیکل سوار کو ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا تو عوام کس قدر برہم ہوئی تھی (اور برہم ہونے کی وجہ صرف ہیلمٹ کی قیمتوں کا بڑھ جانا نہیں تھا)۔ اسی دوران پٹرول پمپس پر پابندی عائد کر دی گئی کہ ہیلمٹ کے بغیر پیٹرول نہیں مل سکتا۔ میں اپنی دوست کی طرف گئی اور دوست کا بھائی اپنی موٹر سائیکل پر بغیر ہیلمٹ کے مجھے گھر چھوڑنے آیا۔ راستے میں ہمیں پٹرول ڈلوانے کی ضرورت پڑی تو میں نے اس سے کہا کہ اب کیا کیا جائے۔ پٹرول پمپ والے نے اس کا حل بتا دیا اور ایک دوسرے بندے سے جس کے پاس ہیلمٹ تھا لے کر میری دوست کے بھائی کو دیا تاکہ کیمرے میں یہی آئے کہ ہیلمٹ والے کو پٹرول دیا گیا ہے۔ ہم پٹرول ڈلوا کر آگے بڑھے تو ایک اور موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کے بغیر آیا اور پمپ ملازم نے اس کو بھی یہی مشورہ دیا۔ جس سے ہم نے ہیلمٹ لیا تھا ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس نے بڑی فراخ دلی سے شکریہ قبول کیا اور پھر دوسرے کو ہیلمٹ دے کر اپنی خدمات پیش کیں۔ معلوم نہیں اس نے ہمارے بعد کتنوں کی یہ مشکل حل کی لیکن مجھے ایسی حرکت پر افسوس ہوا اور میں نے اپنی دوست کے بھائی سے کہا کہ اگر آئندہ تم نے ہیلمٹ استعمال نہ کیا تو میں آنٹی یعنی اس کی والدہ کو بتاوں گی کہ تم بہت گندی ڈرائیونگ کرتے ہو۔
ہمارا یہ حال ہے کہ ہم دو نمبری کر کے خوش ہوتے ہیں اور حادثات کی صورت میں سارے کا سارا قصور حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی حالات آج کل پلاسٹک بیگ کی پابندی پر ہیں۔ ہم بڑھ چڑھ کرپلاسٹک مالکان کا کاروبار ٹھپ ہونے پر حکومت کو کوس رہے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں ہم کہ ہمیں اپنی اور لاکھوں زندگیوں کی پرواہ کم اور دوسروں کا کاروبار بند ہونے پر زیادہ تکلف ہو رہی ہے۔ میری ایک دوست ٹشو پیپر استعمال نہیں کرتی۔ جب میں نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولی کہ ٹشو پیپر درختوں کو کاٹ کر بنایا جاتا ہے اور ہمیں درختوں کی بہت ضرورت ہے۔ تب سے میں نے بھی ٹشوپیپر کا استعمال کم کردیا ہے۔ میں جب اپنی دوسری دوستوں کو ٹشوپیپر کم استعمال کرنے کی وجہ بتاتی ہوں تو وہ ہنس دیتی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ تمہارے اکیلے کہ استعمال نہ کرنے سے کیا فرق پڑنے والا ہے۔ قدرتی آفات سے موت کے حادثے کا شکار ہونے والوں کے سلسلے میں بھی یہی کہوں گی کہ بہت سی احتیاطی تدابیر اپنا کر ان سے بھی کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر عمارات کی تعمیر کے لیے اچھا میٹیریل استعمال کر کے اور ہنگامی صورتحال کے لیے احتیاطی تدابیر کو فوری اور مؤثر بنا کر، کیونکہ ہم اپنی لاپرواہی کو بھی خدا کی رضا جان کر خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے۔