موت کا کاروبار اور ہمارا مستقبل
عابد حسین
منشیات کی لعنت دن بہ دن ہمارے معاشرے میں سرایت کررہی ہے۔ نوجوان نسل ہمارا قیمتی اثاثہ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں باالعموم اور خیبرپختونخواہ میں باالخصوص ہماری نئی نسل کو نظر بد لگ گئی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو چرس، آئس اور ہیروئن کے لت لگ گئ ہے۔ ایک طرف ہمارے ملک میں روزگار کا فقدان ہے اور دوسری طرف متوسط طبقے کے چند کرپٹ مافیا قسم کے لوگ اس برائی اور لعنت کو اپنے لیے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کا ذریعہ بنا کر ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ پختونخواہ اور خاص طور پر مالاکنڈ میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ والدین کی اکثریت اپنی اولاد کے بہتر مستقبل اور تعلیم کے لیئے فکرمند رہتی ہے۔ دوسری طرف انہیں یہ غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں انکے بچے آئس اور ہیروئن کے لت میں نہ پڑ جائیں۔ شاید یہ برائی ہماری نسلوں کو لے ڈوبے گی۔ یہ وہ برائی اور لعنت ہیں جس کو ہم بظاہر دوسروں تک محدود سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک بھٹکا ہوا نوجوان سارے معاشرے کے لئے ایک دن درد سر بن جاتا ہے اور اس ایک نوجوان کی وجہ سے دوسرے پھر تیسرے اور اس طرح سارا معاشرہ آہستہ آہستہ اس برائی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
نشہ آور اشیاء اور جرائم کی روک تھام کے ادارے یو این او ڈی کے مطابق خیبرپختونخواہ کی کل آبادی میں آٹھ لاکھ افراد کسی نہ کسی قسم کا نشہ کرتے ہیں۔ جس میں زیادہ استعمال آئس اور ہیروئن کا ہے۔ جس کا تناسب ملک کے دوسرے صوبوں کے نسبت سب سے زیادہ ہے۔ ان میں 78 فیصد تعداد مردوں پر مشتمل ہے اور نوجوانوں کی تعداد 8 لاکھ کے قریب ہے۔ ادارہ مزید کہتا ہے کہ پختونخواہ میں سالانہ 2 بلین ڈالرز کے ڈرگز کا دھندہ ہوتا ہے اور سالانہ 44 لاکھ ٹن نشہ آور اشیاء یا ڈرگز کا استعمال کی جاتی ہے۔
پشاور کے بعد دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ضلع مالاکنڈ ہے۔ یہاں کل 7,20,295 کی آبادی میں تقریباً 80,000 افراد نشے کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ پشاور کے بعد منشیات کا سب سے زیادہ کاروبار بھی مالاکنڈ میں ہوتا ہے۔ ضلع مالاکنڈ کے علاقے درگئی اور سخاکوٹ کو نشہ آور اشیاء کے کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیئے مختلف ادارے بھی بنائے ہیں, مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز بھی منشیات کی روک تھام اور بحالی صحت پر کام کررہے ہیں لیکن پھر بھی روز بروز ڈرگز کے کاروبار اور نشئی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ قانون کی کمزورعملداری کے ساتھ ساتھ سیاسی افراد اور بعض سرکاری افسران کا سپورٹ بھی ہے۔ اگرچہ پولیس سمیت متعلقہ ادارے کاروائیاں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اسمگلرز اور ڈیلرز کو قابو کرنے میں ناکام بھی نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی طور پر طاقتور افراد کا سپورٹ اور رشوت کا زور ہے۔
ضلع مالاکنڈ میں جہاں دوسرے مسائل کا انبار ہے وہیں ڈرگز کے کاروبار اور نشئی افراد کی بھی بھرمار ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوان نسل کا مستقبل خطرے میں ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے مسائل و جرائم اور معاشرتی برائیاں جنم لے رہے ہیں۔ مالاکنڈ کے ایک چھوٹے سے گاوں کی مثال لیجئے۔ یہاں کے کل 2,089 نفوس کی آبادی میں 225 افراد جو کہ سب کے سب نوجوان ہیں آئس اور ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ حکومت اور وفاق کو اس بے قابو بلا کو قابو میں کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے۔ ورنہ ہمارا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جائے گا۔