اسمبلیاں اور ہمارے نمائندے

نبیل ابڑو

ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ سیاست عبادت کی طرح ہی مقدس کام ہے۔ آپ سیاست کے ذریعے لوگوں کی خدمت کر سکتے ہیں اور اس خدمت کی بدولت ہی لوگوں کی دعائیں حاصل کی جا سکتی ہیں، مگر ابراہم لنکن کے برعکس موجودہ دور میں لوگ لوٹ کھسوٹ، کرپشن، اقرباءپروری، اپنے حریفوں سے انتقام لینے کی خاطر ہی سیاست میں آتے ہیں۔ ہر 5 سال بعد اربوں کے خرچے سے انتخابات منعقد کیئے جاتے ہیں جبکہ منتخب کردہ نمائندوں کی مراعات پر بھی کروڑوں روپے کا خرچہ کیا جاتا ہے تاکہ ہمارے یہ منتخب کردہ نمائندے ہمارے ملک کے وسیع تر مفاد میں قانون سازی کر سکیں، ملک میں موجود مسائل کے حل تلاش کر سکیں، آنے والی نسلوں کے لیے بہتر فیصلے کریں، پر پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ بیشتر نمائندوں کے منہ میں تو جیسے مونگ ڈلی ہو اور زبان کا استعمال گویا جرم ہو، جو چند بولتے ہیں تو ہمیشہ گالم گلوچ ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کے نزدیک اچھا پارلیمینٹیرین وہ ہے جو زیادہ اچھی گالیاں نکالتا ہو، بدتمیزی میں اس کا کوئی ثانی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بجائے کسی مثبت کام کے اسمبلیوں سے ہمیشہ گالم گلوچ کی تقاریر سننے کو ملتی آئی ہیں۔ قومی اسمبلی کا فلور تو گویا ایک دوسروں کو گالیاں دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، کبھی حکومتی بنچوں سے آواز آتی ہے “اوے تیری بہن نوں”  کبھی اپوزیشن کی بنچوں سے آواز آتی ہے “اوے تیری ماں نوں”، کشمیر مسئلے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بات کرتے ہوئے لیگی سینیٹر مشاہد اللہ خان تو سرے سے کشمیر کا ذکر کرنے کے بجائے فواد چوہدری کو مخاطب ہو کر “پٹا ڈالنے” کی بات کرنے لگے، دوسری جانب سے فواد چوہدری آگ بگولہ ہوکر “زبان کھینچنے” کے اشارے کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔

سندھ اسمبلی بھی اس کار خیر میں کسی سے پیچھے نہیں ہے، وہاں تو حکومتی ممبر کلثوم چانڈیو نے اپوزیشن کی نصرت سحر عباسی کو “باگاڑی” ہی قرار دے دیا، جبکہ نصرت صاحبہ بھی کبھی اسمبلی کے فلور سے چپل لہراتی ہوئی نظر آتی ہیں تو کبھی ایسی عجیب و غريب چیخیں نکالتی ہیں کہ شریف بندہ کانوں پر ہاتھ رکھ دے۔ کبھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں “چور چور”  لٹیرا لٹیرا” کی صدائیں گونجتی ہیں تو کبھی “سلیکٹڈ سلیکٹڈ”  کی یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا وفاقی وزیر مراد سعید نے تو جب بھی اسمبلی میں کھڑے ہوکر بات کی ہے تو گالیاں اور چیخیں ہی نکالی ہیں، عمران خان کو شریف النفس قرار دے کر دوسروں کی پگڑی اچھالنا ان کا وطیرہ ہے تاہم دوسری جانب سے قادر پٹیل بھی مقابلے میں کسی سے کم نہیں۔ سندھ اسمبلی سے حلیم عادل شیخ تو سستی تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، بجائے مسائل پر بات کرنے کے ہمیشہ اپنی جگہ سے اٹھتے اٹھتے دکھائی دیتے ہیں تاہم حکومتی بنچوں سے تیمور تالپور ہر وقت جھگڑا کرنے کے لیئے تیار نظر آتے ہیں۔ سینیٹ میں تو خیر ہی خیرہے، نہ کسی کے آنے کی ٹینشن نہ کسی کے جانے کی۔ سینیٹزر صاحبان بغیر کسی ٹینشن کے پارلیمنٹ لاجز کے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں سرکاری کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، اگر دل نے چاہا تو سیشن کا حصہ بن گئے ورنہ اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بہر حال! اس ساری تحریر کا نچوڑ یہ ہے ہمارے منتخب کردہ نمائندے ہمارے  ٹیکس کے پیسوں سے ہی منعقد کردہ سیشنز میں گالم گلوچ، طنز و تنقید کے بجائے کوئی مثبت کام بھی کریں، جس کام کے لیئے ہم نے انہیں منتخب کیا ہے وہ کریں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں، تا کہ اس ملک کی عوام آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں۔