عاصم باجوہ معاملہ، سوال ہی غلط ہے

 عاطف توقیر

ان دنوں عاصم باجوہ کی بابت ایک اخباری رپورٹ کے بعد ملک بھر میں بحث جاری ہے کہ یہ اسٹوری کہاں سے آئی۔ کوئی اینکر کہہ رہا ہے کہ سابقہ بھارتی فوجی نے دی، کوئی کہہ رہا ہے کہ سی پیک کے خلاف سازش ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ فوج کے خلاف سازش ہے مگر اس تمام شور میں ایک بنیادی سوال غائب کردیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کی فوج میں ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں میں اضافے کے درمیان کسی ممکنہ تعلق کی جانچ کیوں نہیں ہونی چاہیے؟

جب کسی موضوع کو تحقیقی اور تفصیلی انداز سے دیکھا جاتا ہے، تو سب سے پہلے وہ سوال تلاش کیا جاتا ہے، جو اس موضوع کی گہرائی تک پہنچا سکے۔ کیوں کہ اگر سوال درست نہ ہوا، تو تحقیق فقط وقت کا ضیاع ہو گی۔ ہماری پوری تاریخ میں تاہم سوال ہمیشہ غلط رکھا گیا اور وجہ یہ ہے کہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے ٹھیک نہیں ہونا۔ ہم نے اپنی غلطیوں کو درست نہیں کرنا، ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا اور ہم نے ترقی کے راستے کی جانب نہیں بڑھنا۔ ہم نے جملے بازی کرنی ہے، غدار غدار کے نعرے لگانا ہے، فلاں نے سازش کر دی کہہ کر خود کو مطمئن کرنا ہے، یہ سب فلاں کا کیا دھرا ہے کہہ کر خود کو اطمینان دلانا ہے، لیکن سیکھنا کچھ نہیں۔ اس لیئے آپ تاریخ بھر کو کھنگال لیں، ہمارے ہاں ہر سانحے کے بعد قومی سطح پر اٹھایا جانے والا سوال ہی غلط تھا۔

فاطمہ جناح اپنی کتاب  ”مائی برادر“  کے پہلے باب ”قوم یتیم ہو گئی“ میں لکھتی ہیں کہ ہم کراچی میں ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترے تو جناح صاحب کی طبیعت نہایت ناساز تھی۔ تاہم ایمبولینس وہاں موجود نہیں تھی اور ہمیں انتظار کا کہا گیا تھا۔ طویل انتظار کے بعد فوجی ایمبولنس پہنچی۔ اس دوران جناح صاحب کی سانس اکھڑ رہی تھی۔ کچھ دیر گاڑی چلی اور رک گئی۔ جب کچھ دیر گاڑی کھڑی رہی تو میں حالات جاننے کے لیے نیچے اتری۔ ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی کا ایندھن ختم ہو گیا ہے۔ یہاں سوال پوچھا جانا چاہیے تھا کہ ملک کے پہلے گورنر جنرل کو ہنگامی صورت حالت میں ہسپتال پہنچانے کے لیئے بھیجی جانے والی ایمبولنس میں ایندھن کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ مگر قومی سطح پر بحث یہ تھی کہ جناح صاحب نے اپنی صحت کی پروا کیئے بغیر کام کیا اور ڈاکٹروں کی ہدایات تک کی پروا نہ کی۔ ملک ٹوٹا تو سوال یہ نہیں تھا کہ بنگال کے لوگوں کو ہم کہاں لے گئے کہ پاکستان کے اصل معمار یہ بنگالی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے اور ایسے کون سے محرکات تھے، جن کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا۔ بلکہ سوال اس وقت یہ تھا کہ بنگال کے لوگوں نے بھارت کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے ساتھ غداری کیوں کی۔ آپ اس وقت بھی کسی سے پوچھیے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا، وہ آپ کو کبھی وہ محرکات نہیں بتائے گا کہ بنگال میں پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کب شروع ہوئی، قومی زبان اردو کی بجائے بنگالی رکھنے کے لیئے تحریک کیسے بنی۔ بنگال میں مسلم لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ کیا تھی، وہاں مادری زبان کے حق میں مظاہرے کرنے والے طلبہ پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نتیجہ کیا نکلا۔ ملک کے مارشل لاء نے کس طرح بنگال کے لوگوں کو وفاق سے دور کیا؟پاکستان کی تحریک میں بہ طور طالب علم پیش پیش رہنے والے اور جمہوریت کی تحریک میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظر آنے والے مجیب الرحمان کیسے بنگال کی علیحدگی کی راہ پر مجبور ہوئے یا سیاسی مسئلے کو عسکری آپریشن سے حل کرنے کا کتنا نقصان ہوا؟ آپ اس میں سے کوئی ایک بھی سوال کبھی کسی سنجیدہ مذاکرے میں نہیں سنیں گے۔ آپ کو سننے کو جو ملے گا وہ یہ کہ بھارت نے کیوں پاکستان میں مداخلت کر کے پاکستان کو دو لخت کر دیا؟

پاکستانی تاریخ کے سارے سانحوں اور المیوں کو جانچنے بیٹھے تو بحث طویل ہو جائے گی۔ اس لیے زیادہ دور نہیں جاتے ابھی سن دو ہزار گیارہ میں، جب اسامہ بن لادن کو امریکا نے ایبٹ آباد میں مارا توہمارے یہاں بحث یہ نہیں تھی کہ ایک عالمی دہشت گرد ملک کی سب سے بڑے ملٹری اکیڈمی سے صرف سات سو میٹر دور کیسے رہ رہا تھا، بلکہ اینکر حضرات بحث کر رہے تھے کہ امریکا کی جرات کیسے ہوئی پاکستانی خودمختاری کو پامال کرنے کی۔ اسی طرح عدالت کوئی فیصلہ دے جو ہماری سمجھ کے مطابق ناانصافی ہو، تو ہمارے ہاں آپ کبھی یہ سوال نہیں سنیں گے کہ پاکستان میں عدالتی اصلاحات کیوں نہیں ہوتیں؟ پاکستان میں پینل کوڈ ڈیڑھ سو برس پرانا ہے، اسے آج کے دور سے ہم آہنگ کیوں نہیں کیا جاتا؟ قانون نافذ کرنے والوں یا استغاثہ نے کتنے شواہد عدالت کے سامنے پیش کیے؟ بحث ہوتی ہے کہ ہماری عدلیہ اتنی کرپٹ کیوں ہے؟ جج بکے ہوئے ہیں، عدالتیں مجرموں کا ساتھ دیتی ہیں۔ یا عدالت کم زور ہے تو عدالتوں کو کیوں نہ مضبوط کیا جائے؟ ہمارے ہاں تو بلکہ جعلی پولیس مقابلے کا دفاع یہ بتا کر کیا جاتا ہے کہ عدالتوں سے مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔ ایس پی داوڑ کی لاش افغانستان سے ملتی ہے، تو سوال یہ نہیں ہوتا کہ اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے ایس پی کی لاش افغانستان کیسے پہنچی؟ کون کون سے ناکوں سے گزری؟ کس طرح سرحد عبور کرائی گئی؟ جانچ پڑتال کس نے کرنا تھی؟ قتل کہاں کیا گیا؟ کیسے کیا گیا؟ کیوں کیا گیا؟ اور اگر ایک لاپتا پولیس آفیسر کو اسلام آباد سے افغانستان پہنچایا جا سکتا ہے تو کوئی بم، کوئی گولا، ہتھیار یا منشیات کی نقل و حرکت کا کیا عالم ہو گا؟ قومی بحث یہ تھی کہ افغانستان ایس پی داوڑ کی لاش پاکستان کے حوالے کیوں نہیں کر رہا؟ یا محسن داوڑ کیوں لاش لینے سرحد پر پہنچے ہیں؟

آپ گنتے جائیں، ہر واقعے کے بعد یہی حال ہے اور کوئی اٹھ کر پوچھنے والا نہیں کہ یہ سب فروعی بحث بعد میں کر لیں گے پہلے اصل حقائق کو تو سامنے لایا جائے۔ ابھی عاصم باجوہ صاحب سے متعلق ایک اخباری اسٹوری کے بعد آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہی حال ہے۔ ٹی وی پر اینکر بیٹھے ہوئے ہیں جو فقط ایک سادہ سا سوال پوچھنے کی بجائے کہ کیا سابق جنرل صاحب کی فوج میں ترقی اور ان کے خاندان کی کاروباری ترقی کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ یا کیا نورانی کی جانب سے اخباری رپورٹ میں پیش کردہ اعدادوشمار یا حقائق من گھڑت ہیں؟ یا احمد نورانی کی رپورٹ کہہ کیا رہی ہے؟ اور کیا اس پر کوئی عدالتی کارروائی نہ ہونا عوامی مفاد کے حق میں ہے یا خلاف ہے؟ بحث لیکن یہ جاری ہے کہ نورانی غدار ہے۔ نورانی کسی سابقہ بھارتی فوجی کے الزامات کی نقل کر رہا ہے یا نورانی کی یہ اسٹوری سی پیک پر حملہ ہے۔، اب پھر آپ دیکھیں گے عاصم باجوہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہونے والی بات چیت کے دور میں ملک کے مختلف علاقوں یا سرحدوں پر جان دینے والے نوجوان فوجیوں کی تصویریں دکھا کر ماتم کیا جائے گا؟ یعنی فوجی اپنی جان دے رہے ہیں، اس لیئے گفتگو نعرے بازی تک رکھیے۔ ایسے میں کوئی اٹھ کر یہ پوچھ لے گا کہ میدانِ کارزار میں اپنی جان قوم کے نام کر دینے والوں کو سلام مگر صاحب یہ نوجوان مر کیوں رہے ہیں؟ یہ کون سی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں؟ یہ پالیسیاں کون بنا رہا ہے؟ اور کب تک ہم اپنے سویلین اور فوجی بیٹے بیٹیوں کی لاشیں اٹھائیں گے، تو پھر شور مچ جائے گا کہ یہ سوال ہی غدار ہے؟ سوال ملک دشمن ہے۔ سوال غیرملکی جاسوس ہے۔

ملک میں حب الوطنی اور غداری کی کل تعریف سکڑ کر اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر آپ کہتے ہیں ملک حالت جنگ میں ہے، تو آپ محبِ وطن ہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں ملک حالت جنگ میں کیوں ہے؟ تو آپ غدار ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، تو آپ محب وطن ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں ملک نازک دور سے کیوں گزر رہا ہے، تو آپ غدار ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں دہشت گرد فلاں ملک کی سرحد پار کر کے آئے اور  تباہی پھیلا کر چلے گئے، تو آپ محب وطن ہیں، اگر آپ پوچھتے ہیں کہ یہ دہشت گرد آئے کیسے؟ اور انہیں روکا کیوں نہیں گیا؟ روکنا کس نے تھا؟ تو آپ غدار ہیں۔ تو تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھنا، یہ ایسے ہی چلنا ہے۔ اگر آپ واقعی سنجیدہ ہیں تو سنجیدگی کا مظاہرہ بھی کرنا ہو گا۔ فی الحال آپ ایسا کریں کہ حالات ٹھیک نہ کریں، سوالات ٹھیک کر لیں۔ آپ سوالات ٹھیک کر لیں گے تو حالات خود بہ خود ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے۔