ہارڈ ٹاک

 وقاص احمد

بی بی سی کے شہرہ آفاق پروگرام ہارڈ ٹاک میں اسحاق ڈار کا انٹرویو اور اس کے چند مخصوص حصوں کو پاکستان کے میڈیا میں ہائی لائٹ کرکے حکومتی شادیانے، حکومتی ہرکاروں نے اس انداز میں بجائے ہیں کہ جیسے ہارڈ ٹاک کے میزبان انٹرپول کے سربراہ ہیں اور پروگرام غالباً انٹرپول کی کوئی سماعت تھی، جس کے بعد آج کل میں اسحاق ڈار اور نوازشریف کو گرفتار کرکے پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ پہلے تو میں اہل پٹوار سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ انٹرویو کے سخت سوالات میں قباحت کیا تھی؟ میزبان نے ایک بہترین صحافی کی طرح وہ تمام چھبتے ہوئے سوال کیئے، جو سوال مختلف اشکال میں پاکستان میں ن لیگ مخالف طبقہ کرتا ہے۔ کسی ملک میں اندرونی طور پر جو ہو رہا ہوتا ہے وہ یا تو اس ملک کی عوام کو معلوم ہوتا ہے یا اس کے اپنے صحافیوں کو۔

ہارڈ ٹاک کے میزبان کو نہ تو آر ٹی ایس بند ہونے کی وجوہات پر کوئی سرکاری رپورٹ ملی، نہ محکمہ زراعت سے ن لیگی امیدواران کو پڑنے والی چپیڑوں کا حساب ملا، نہ اسے معلوم ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی سے موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کیوں ملا، نہ اسے آفیشلی اطلاع ہے کہ ویڈیو والے نیب جج کی اعترافی ویڈیو کا مدعا کیا ہے، نہ اسے  ”چورمین نیب“  کی  ”چمی چاٹی“ والی ویڈیو کا معلوم ہے نہ ہی اسے اس دوسری ویڈیو کے بارے میں معلوم ہے جس میں پاکستان کا چیف جسٹس، جج ارشد ملک پر نواز شریف کو سزا سنانے پر زور دے رہا ہے۔ نہ اسے جنرل غفور کی سرپرستی میں چلنے والے سوشل میڈیا گینگ کے بارے میں اطلاعات ہیں، نہ ہی غالباً اسے فیس بک پر پاکستان کے 35000 سے زائد جعلی اکاؤنٹس کی بندش کا کیس معلوم ہے، جو 2018 کے الیکشن سے پہلے ایک منظم مہم چلا رہے تھے، نہ اسٹیفن صاحب کے پاس ایسی کوئی سرکاری رپورٹ موجود ہے جس میں تحریک لبیک کے بننے اور بگڑنے کے عمل کی وضاحت ہے نہ ہی اسے ان تفصیلات کا معلوم ہے کہ ن لیگ کے اندر سے ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک نے جو ووٹ بینک چرایا تھا، اس نے براہ راست ن لیگ کو 15 نشستوں پر شکست سے دوچار کیا۔ نہ اسٹیفن کو یہ معلوم ہے کہ حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ اور خادم رضوی کی تحریک لبیک کو سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹر کرنے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اعتراضات تھے مگر ان پر ”خفیہ دباؤ“  ڈال کر دونوں پارٹیوں کو انتخابی نشانات جاری کیئے گئے نہ ہی اسٹیفن کے پاس یہ معلومات ہیں کہ الیکشن ختم ہوتے ہی سب سے پہلا قدم یہی اٹھایا گیا تھا کہ جن دو پارٹیوں کو دباؤ ڈال کر رجسٹر کروایا گیا انہی دو پارٹیوں کی رجسٹریشن کینسل کروا دی گئی۔

اب آپ معلومات کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اکٹھے کیجیے اور پھر تصور کیجیے کہ آپ صحافی ہیں اور آپ کے پاس یہ معلومات سرے سے موجود نہیں ہیں، آپ کے ہاتھ میں صرف یورپی یونین کمیشن کی ایک ایسی رپورٹ ہے جو صرف الیکشن والے دن کی کارگزاری پر مشتمل ہے۔ الیکشن سے پہلے کیا کچھ ہوا وہ اس رپورٹ کا حصہ نہیں ہے تو آپ اسحاق ڈار کو کیسے رگیدیں گے؟ ایسے ہی جیسے اسٹیفن نے کیا؟ تو کیا پھر ذسٹیفن نے کچھ غلط کیا؟ میرے خیال میں نہیں! دوسری بات، مان لیجیے! کہ اسحاق ڈار ملک سے مفرور ہیں۔  انہیں صحت کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو ان کی واپسی میں رکاوٹ ہے۔ اسحاق ڈار ملک سے صرف اس لیئے گئے ہیں (اور میں انہیں اس فیصلے پر سپورٹ کرتا ہوں) کہ اس ملک میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے جو کرتوت دکھا رہے ہیں اس میں ان کے ساتھ انصاف ممکن نہیں۔ اسحاق ڈار ایک ٹیکنوکریٹ ہیں، ٹیکنوکریٹس کبھی جیل نہیں جاتے۔ جیلیں سیاستدانوں کو تو سیاسی فائدہ دیتی ہیں لیکن ٹیکنوکریٹس کے لیئے یہ ان کی عزت، مرتبے اور زندگی بھر کی کمائی، نیک نامی پر دھبہ ہوتی ہیں۔ اسحاق ڈار سیاستدان میٹیریل کے بندے نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کا جانا بنتا ہے۔ اب اگر اس ملک کا صحافی ان سے یہ سوال کرے کہ آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں تو اسے پاکستان کے نظام انصاف کا بیک گراؤنڈ تو نہیں سمجھایا جاسکتا کیونکہ آپ نے میڈیکل گراؤنڈز پر وہاں پناہ لی ہوئی ہے۔ اس لیئے اس نکتے پر بھی ہارڈ ٹاک  کے میزبان کے چھبتے سوالات میری سمجھ کے مطابق درست ہیں۔

اب آتے ہیں اہل یوتھ کی طرف! اگر کوئی بھی انصافی بھائی مجھے اتنا سمجھا دے کہ بی بی سی کے اس انٹرویو میں ایسی کونسی نئی خاص بات ہے جس پر فتح کے شادیانے بجنا ختم ہی نہیں ہورہے۔ پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات ہمارے سامنے ہیں۔ عدالتوں میں کیا ہوتا رہا ہے اور کیا ہورہا ہے اس انٹرویو سے کیا اس کی حقانیت تبدیل ہوجائے گی؟ الیکشن سے پہلے سیاسی جوڑ توڑ سے لےکر مخالفین کو چپیڑیں کروانے، وفاداریاں تبدیل کروانے، جیپ اور جہاز کا بے دریغ استعمال کرنے، جنوبی پنجاب محاذ بنانے سے لے کر سینیٹ کے الیکشنز میں ن لیگ کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے تک جو کچھ ہوا کیا وہ اس انٹرویو سے بدل ہوجائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں چلتے موجودہ  ”ہائیبرڈ نظام حکومت“  کو جمہوری نظام سمجھنے پر زور دینے والے صرف دو طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو اس نظام کے بینیفشری ہیں، دوسرے وہ جو اس نظام کی اصل سے متعلق ذرا برابر بھی معلومات نہیں رکھتے۔ اسٹیفن صاحب واضح طور پر دوسری کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں اور اس میں حیرانی کی کوئی بات بھی نہیں۔ وہ تو ایک غیر ملکی صحافی ہیں، خود پاکستان میں بیٹھے صحافیوں اور عام لوگوں کو بھی کہاں یہ معلوم تھا کہ دھرنے کے دوران جنرل ظہیر الاسلام کی کال آئی بی نے ٹریس کی تھی جو نواز شریف نے راحیل شریف کے سامنے رکھ دی یا پھر راحیل شریف ایکسٹیشن لینے کے لیئے کیسی کیسی مہم بازی کرتا رہا یا پھر نیب کے جج سے لےکر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز پر پانامہ ڈرامہ کے دوران کیا بیتتی رہی، یہاں تک کہ نوازشریف نے ایک ایک کرکے ان جرائم کی تفصیل عوام کے سامنے رکھنا شروع کردی۔ تو پھر بے چارے اسٹیفن کو ایک لاعلم بندہ سمجھ کر اگنور کر دیں۔

برسیل تزکرہ، اسحاق ڈار کے انٹرویو والے دن ہی اسی بی بی سی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی کا ایک انٹرویو لیا ہے۔ جس میں گھر کے بھیدی نے خود لنکا ڈھائی ہے، اگر آپ انصافیے نہیں بلکہ انصاف کے متلاشی ہیں تو وہ انٹرویو ضرور سنیے گا!