حق خودارادیت یاشہ رگ؟
سرداراشفاق عباسی
پاکستانی زیرانتطام کشمیر میں حالیہ راولاکوٹ سے شائع ہونے والے اخبارمجادلہ پر پابندی کے چار ماہ گزر جانے اور کسی بھی سرکاری سطح پر ردعمل نہ ملنے سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہےکہ پاکستان جوکشمیر کو پچھلے 70 برسوں سے اپنی شہ رگ گردانتا ہے، اس کی کشمیریوں کے ساتھ کتنی ہمدردیاں ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان مملک میں سے ایک ہے، جہاں ہر سیاست دان دوسرے سیاست دان کی ٹانگ کھینچتا نظر آتا ہے بلکہ اگر ایسا کہیے کہ پاکستان میں سیاست کامحور صرف ایک دوسرے پر کھل کر الزام تراشی کرکے خوش منانا ہےتو ہر گز بےجا نہ ہوگا۔ لیکن سچ بولنا اور اپنے حقوق کے لیے بات کرنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے اور جو ایسے کرتا ہے، اسے خاموش کرا دیا جاتا ھے۔
13 اگست 1948 کوپیش ہونے والی قرارداد کے تحت یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ کشمیرنہ پاکستان کاحصہ ہے اور نہ ہی بھارت کا، جب تک کہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنے حق رائے دہی سے نہیں کر لیتے۔ پھر کون سی شہ رگ اور کہاں کااٹوٹ انگ؟؟ بات سمجھ سے بالاتر ہے یہ قصہ کہاں سے وارد ھوا۔
آئے روز لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت فائرنگ سےدونوں اطراف کے صرف کشمیری زخمی ہوتے ہیں، شہید ہوتے ہیں،گھرتباہ ہوتے ہیں، مال مویشیوں کی صورت میں بھاری نقصان ہوتا ہے۔ اس پر پاکستانی میڈیا کشمیر میں کوریج نہیں کرتا لیکن چند کشمیری صحافی جو کشمیر کے مسائل اور خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں ان کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور دوسری طرف بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بھارتی میڈیا ٹھیک لائن آگ کنٹرول پر پہنچ کرچیختا رہتا ہے کہ پاکستانی فوج صرف مسلمان کشمیریوں کو ہی نشانہ بنارہی ہے لیکن یہ دونوں ممالک، دنیا کا میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اوراقوام متحدہ کو سرے سے نظر نہیں آتا کہ جن کشمیریوں کے ساتھ دونوں ممالک اپنا دوہرا معیار رکھے ہوئے ہیں ان کا قصور کیا ھے اورحق کیا؟ وہ تو صرف ازادی چاہتے ہیں جو ان کاحق ہے۔
بھارت کے زیرانتطام کشمیر میں تو بھارتی فوج، پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ایک گھر کے لوٹنے سے قتل وغارت تک کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں لیکن اگر بات کی جائے پاکستانی زیرانتطام کشمیر کی تو یہاں بھی حالات زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
ہسپتالوں میں ریپ کیسز، اسکول کی نوجوان لڑکیوں کوبیچ راستے تنگ کرنا اور سہولیات کی عدم دستیابی ہماری آنے والی نسلوں کا تباہ حال مستقبل ان کی ہمدردیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میرا ذاتی تعلق جس علاقے سے ہے وہاں آج کے اس گلوبل ویلج کہلائے جانے والے دور میں بھی 45000 کی آبادی کو تمام تر بنیادی سہولتوں بجلی، ہسپتال اور موبائل فون سروس سے محروم رکھاگیا ہے اور سردیوں کے چھ ماہ ایک طرح سے زندگی اور موت کی کشمکش کی سی صورت حال ہوتی ہے اس پر کہا جاتا ہے کہ آپ آزاد ہیں۔
اگر پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے تو حق خودارادیت کے لیے بلند ہونے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ کشمیر کی حکومت بھی اس پر کوئی اقدامات نہیں کرتی کیونکہ ان کو جو احکامات اسلام اباد سے جاری کیے جاتے ہیں، ان پر ڈنکے کی چوٹ پر عمل درآمد بھی کروایا جاتا ہے۔
جس رپورٹ کی بنا پر مجادلہ کو بند کیا گیا وہ رپورٹ مجادلہ میں کشمیری نثاد برطانوی صحافی تنویراحمد نے تین سال کے عرصے میں ہرگاؤں پیدل چل کر باغیرت کشمیریوں کے دل کی آواز دنیا کے سامنے لانے کی ایک کوشش تھی۔ اس کو شائع کرنے والے اخبار کو مظفرآباد میں بیٹھی سرکار نے اسلام آباد سے بال پن سے لکھی ہوئی درخواست پر بند کر دینا ہی غنیمت جانا۔ آخر کیسے نہ کرتے کرسیاں بھی تو بچانی تھیں۔ اس پر چار ماہ گزرجانے کے بعد بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا آخر کیوں؟؟
وزیراعظم کشمیر کے بیان کہ ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرنا ہوگا پر پاکستانی میڈیا اینکرزاورسیاستدانوں نے کشمیریوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے لیکن پاکستان کی سرکاری سطح ہو یا سیاسی کہیں سے کوئی مزمتی بیان تک سامنے نہیں آیابلکہ الٹا غدار اور انڈین ایجنٹ کے خطاب ملتے رہے اس سے پاکستانی اہل قلم کی پالیسی بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی کشمیریوں کے ساتھ کتنی ہمدردیاں ہیں۔
پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگار،صحافی اور اہم شخصیات بھی کشمیر کے مسئلے کا واحد حل حق خودمختاری کہتے ہیں اورحقیقت میں حالیہ تنازعات سے ہٹ کر بھی کشمیر کے مسئلے کاواحدحل حق خودارادیت سے ہی ممکن ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر روز کتنے معصوم بچے،بوڑھے اور جوان بے گناہ قتل کر دیے جاتے ہیں اور ہماری ماؤ اور بہنوں کی عزتیں لوٹ کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ مائیں بچوں کو صبح تیارکرکے اسکول یا روزانہ کی سرگرمیوں کے لیے بھیجتی ہیں اور واپسی صرف راستہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اور آنسو ان کا مقدر بن جاتے ہیں لیکن کیا ان درد ناک اور ان گنت کہانیوں پر صرف مزمت کرنا ہی کافی ہے۔